میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۳ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

مدثر کو اب سب باپو کہتے ہیں،پہلے ماموں کہتے تھے۔ اس کا ڈیل ڈول مشہور فاسٹ بالر شعیب اختر جیسا ہے۔ وہی اندر مڑے آپس میں ٹکراتے گھٹنے ، وہی سپاٹ تلوے،بڑے پائوں، چوڑے کولہے اور کندھے، ویسی ہی شربتی آنکھیں اور دیپکا پڈکون جیسی دھیمی سلگتی ، سانولی سی رنگت۔ اسے بھی شعیب اختر کی طرح فاسٹ بالر بننے کا بہت شوق تھا۔ ٹیم میں شمولیت کے شوق میںکرکٹ کاکوئی انتخابی ٹرائل نہ چھوڑتا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف جب چیئرمین پی سی بی بنے، ہم نے اسے پر کھنے کی سفارش کی مگر اس سے پہلے کہ یہ مرحلہ بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچتا ۔قسمت مدثر سے تین سمتوںسے بُری طرح اُلجھ پڑی۔
پہلے تو اچھے بھلے صحت مند مگر دستاویزات کے معاملے میں لاپرواہ والدکا انتقال ہوگیا ۔اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ بدنیت چچا نے کاروبار اور کلفٹن والے گھر پر قبضہ کرلیا اور یہ گھرانہ بمشکل لائنز ایریا میں ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل ہوگیا۔ایک میمن سیٹھ جس کے ہاں دولت دیواریں ٹاپ کر آئی تھی ،اس نے مدثر کو اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔ماموں نے بمشکل میٹرک کیا تھا مگر سیٹھ دولت کمانے کے علاوہ ہر معاملے میں اللہ سے بہت ڈرتا تھا ۔مدثر تو اس کے بچپن کے دوست کا بیٹا تھا۔اسی نے انہیں یہ لائنز ایریا والا گھر بھی خرید کر دیا تھا۔فسادات میں اس جگہ کی قیمتیں ایک دم بہت گرگئیں تھیں۔
اس دوران مدثر کا محلے کی ایک لڑکی نسیمہ سے چکر چل گیا۔ لڑکی کا ایک ماموں بھی تھا جو درحقیقت اس کی والدہ کا کزن تھا ۔ اس کی ان کے ہاں موقع بے موقع بہت آوک جاوک رہتی تھی ۔ماموں جان نے انہیں پیار کے بے تکلف لمحات میں دیکھ کر پکڑ لیا۔مدثر کی ماں کو ڈرایا کہ وہ اور لڑکی کے مرحوم باپ دونوں ہی ڈیرہ اسماعیل خان کے خوں خوار قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح گورے سپاہیوں کی اس سابقہ آبادی یعنی جیکب لائنر اور لائنز ایریا میں قائد کا جو غدار ہے اس کو موت کا حقدار ٹہرایا جاتا ہے اسی طرح اگر جوڑے کی یہ شرمناک حرکت کا معاملہ ان کے جرگے میں جائے گا تو نتائج بہت لرزہ خیز ہوں گے۔ جرگے کے دین اسلام پر جان لٹانے والے ارکان ، لڑکا لڑکی دونوں کو بان کی رسی والی چارپائی سے باندھ کر بجلی کے شاک دے کر ادھ موا کردیں گے۔جرگے کا ہر ممبر رومن سینٹ کی تقلید میںاس جوڑے کو بروٹس اور دیگر سنیٹرز کی مانند حلف وفاداری عہد کی روشنی میں ایک دفعہ چھرا گھونپے گا۔ انجام کا سوچو۔برگ خفیف کی مانند خوف سے کانپتی ماں کو اس نے پیشکش کی کہ وہ ایک کام کرسکتا ہے۔
پڑوسی ہونے کے ناطے اپنی کزن بہن کو وہ سمجھالے گا کہ مسلمان کی مسلمان سے شادی ہوسکتی ہے ۔ چونکہ وہ اس سارے معاملے کا واحد گواہ ہے لہذاوہ بخوبی جانتا ہے۔ معاملہ غیرت سے زیادہ سمجھ داری کا ہے۔شادی سادگی سے ہوگی۔بس گھر کے لوگ ہوں گے۔ ہم اس ڈیل کا بیس ہزار روپیہ لے گا۔پرانا موٹر سائیکل لینا ہے۔ماں نے مشکل سے پس انداز کیے ہوئے پیسوں میں سے رقم دلہن کے زیور چڑھاوے کے نام پر دی۔ شادی پر امن طریقے پر ہوئی بلکہ ایک شادی اور بھی ہوئی ۔مدثر اور نسیمہ کی اس شادی کے پورے ایک ہفتے بعد ماموں جان نے اپنی کزن بہن سے یعنی ماموں مدثر کی ساس شادی کرکے نانک واڑے کا راستہ لیا۔جہاں وہ سریے کی ایک دکان پر ملازم تھا۔
پیلی بھیت (بریلی) کے شریف مہاجر گھرانے کے چشم و چراغ ، مدثر کو لڑکی خاص پسند نہ تھی۔وہ اسے کرکٹر ہونے کے ناطے Warm -Up میچ سمجھ کر کھلواڑ میں لگا رہتا تھا۔اسے لگا شادی بلاوجہ ذرا جلدی گلے پڑگئی۔
جرگے والی اس بلیک میلنگ سے مدثر کو اس بات سے نفرت ہوگئی کہ یہ کراچی میں جرگوں کی بدمعاشی کیوں؟
تیسری الجھن یہ ہوئی کہ سیٹھ کے کام سے ایک دن موٹر سائیکل پر جاتے اسے پیچھے سے ایک بڑی جیپ کا سائیڈ پر لگا شیشہ سر پر زور سے لگا ۔جیپ جائے حادثہ سے بھاگ گئی ۔مدثر کی جان تو بچ گئی ۔سیٹھ نے جم کر علاج بھی کرایا، مگر اس Traumatic Brain Injury(TBI) کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اب بے قراری اور بے سبب اداسی کے شدید مگر کم معیاد کے دورے پڑتے تھے ۔غصہ بھی جلد آتا تھا۔اتر بھی جلد جاتا تھا ۔سیٹھ کا حکم تھا کہ ایسی کیفیت میں مدثر کو کوئی نہ چھیڑے۔ایسی ہی کیفیت میں کسی مصروف ملازم نے کہا ــ’’سیٹھ کو سامنے سے سگریٹ لا کر دے دے ـ‘‘ تو مدثر نے یہ روُڈجواب دیا کہ’’ وہ سیٹھ کے باپ کا نوکر نہیں‘‘۔اس بات کی چغلی سیٹھ کے سامنے کھائی گئی ۔ وہ سمجھدار تھا۔جب مدثر نارمل ہوگیا تو سب کے سامنے اس بات کی وضاحت طلب کی گئی۔مدثر نے کہا ’’یہ بات درست ہے وہ صرف سیٹھ کا اس کے بچوں کا نوکر ہے۔ ان کے لیے اس کی جان بھی حاضر ہے ۔چونکہ سیٹھ کے والد کے انتقال کو ایک طویل عرصہ ہوگیا ہے لہذا وہ ان کی نوکری کیسے کرسکتا ہے‘‘۔سیٹھ نے مدثر کے جواب سے خوش ہوکر اسی وقت اسے نئی موٹر سائیکل الاٹ کردی اور اس کی پرانی موٹر سائیکل جمعدار وکٹر کے حوالے کردی۔مدثر کی والدہ جو بہت نیک اور صابر خاتون تھیں اسے تسلی دلائی کہ اس کی بیوی مزاجاً بہت دھیمی اور کچھ بے آسرا سی ہے ۔دین دار بھی ہے ارد و بھی اچھی بولتی ہے جب ہی تو جڑ کے خاندان میں سلیقے اور محنت سے جیتی ہے۔ شہر کی لڑکی ہوتی تو اس کے Tantrums دیکھ کرکب کی دوڑ جاتی ۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ عید شب برات کے علاوہ میکے بھی نہیں جاتی۔
اس حادثے کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ قسمت نے ایک ہلکی سی چپت مدثر کو اورلگا دی۔اس کے سر کے بال تیزی سے گرنے لگے۔وہ سب سے اس کا علاج پوچھتا پھرتا۔حتی کے دفتر میں کام کرنے والی لڑکیوں سے بھی۔جن کے بالوں کے اپنے مسائل سندھ پولیس کے مسائل سے کم نہ تھے۔وہ اسے ادھر اُدھر سے سنے ہوئے فارمولے ،زبیدہ آپا کے ٹوٹکے اور واٹس ایپ پر ہندوستان سے ارسال شدہ نسخے ہراساں و پریشاں ماموں مدثر سے محض اس لیے خوش دلی سے شیئر کرتی تھیں کہ وہ پہلے آزما کر کچھ کامیابی حاصل کرلے تو وہ پھر ان کا استعمال کریں گی۔ورنہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ عورتیں اپنی کھانا پکانے کی ترکیب، شاپنگ کے مراکز، بیوٹی پارلر،بوتیک کے بارے میں کتنی تنگ دل اور Tight-Lippedہوتی ہیں۔مدثر کا بال گرنے اور نمایاں گنج پن کی وجہ سے چہرہ اب مہاتما گاندھی کی طرح دکھائی دینے لگا تھا۔اب اسے ماموں کی بجائے سب باپو مدثر پکارنے لگے تھے۔ اس کا یہ نام دفتر میں میڈیا سیل کے انچارج اور بھٹو کی محبت میں خوار و رسوا ہونے والے ایک سیاسی ورکر کامریڈ جان محمد نے دیا تھا۔اس کے ذمہ ملک اور بیرون ملک کے اخبارات کے تراشے متعلقہ فائلوں میں لگانے کا ذمہ تھا۔پاکستان بھر کے اخبارات اور رسائل اس کے پاس پہنچتے تو جھمجھماتی Marquee کی صورت میں تھے مگر تراشوں کے بعد ان کی شکل اداکارہ عالیہ بھٹ کی جان بوجھ کر جابجا پھٹی ہوئی distressed jeans جیسی ہوجاتی تھی۔سیٹھ کا سن 2020 ء میں ایک ایسا میڈیا ہائوس لانچ کرنے کا ارادہ تھا جو امریکا کی Merdith Corporation کی ٹکر کا ہو۔اس کے لیے کامریڈ جان محمد کو حکم تھا کہ ہر خبر پر نظر رکھو،اس وجہ سے وہ مفتی قوی سے لے کرباکسر عامر خان کی بیوی فریال کے بیانات کے تراشے سینت سینت کر رکھتا تھا، برے دنوں میں عامر خان کی بہنوں نے فریال کو عورتوں کا مائیکل جیکسن کہا تھا ۔یہ تراشا بھی کامریڈ نے سنبھال کر رکھا تھا۔کامریڈ نے ہی پڑھنے کی عینک بھی باپو مدثر کے لیے لاکر رکھ دی تھی۔
باپو مدثر جب شعیب اختر اور وسیم اکرم کو ٹی وی پر سر پر بال جمائے کمینٹری کرتا دیکھتا تو اسے دو طرح سے غصہ آتا تھا کہ ایک تو ٹیم میں شامل ہونے کا موقع ملا نہ اان کے جیسے گھنے بال رہے۔جن دنوں وسیم اکرم کا تعلق مس یونی ورس اور مردوں کی ستائی ہوئی بھارتی حسینہ شسمیتا سین سے جوڑا جارہا تھا، باپو مدثر اپنی ڈیرہ اسماعیل خان کی بغیر بگھار کی مسور کی دھلی ہوئی دال جیسی بیوی کو دیکھ کر آزردہ ہوجاتا کہ اگر وہ بھی پاکستان کی طرف سے کھیل رہا ہوتا تو پریانکا چوپڑہ فلم ’’برفی‘‘ اور امریکا کی مشہور ٹی وی سیریز Quantico اسے پوچھے بغیر سائن نہ کرتی۔اسے امریکامیں پریانکا چوپڑہ کو ایف بی آئی پر بنی ٹی وی ڈراما سیریز کوان ٹی کو میں کم کم کپڑوں میں دیکھ کر بہت صدمہ ہوا۔ بیوی نسیمہ کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ایک عورت جس سے اس کے میاں کے ملنے کے امکانات شاید جنت میں بھی بہت کم ہوں۔ اس کے لباس کے اختصار یا طوالت سے اسے کیا فرق پڑتا ہے مگر پہاڑ پورہ ڈیرہ اسماعیل خان کی نسیمہ تو ایسی معصوم اور جھلّی ، کملی تھی کہ اسے اپنی والدہ کے ازدواجی منصوبوں تک کا پتہ نہ چل پایا ،البتہ جب باپومدثرنے پریانکا چوپڑہ میں دلچسپی کم کرکے اس کی جگہ اداکارہ انوشکا شرما میں اضافی دلچسپی لینا شروع کی تو اس نے اتنا اعتراض ضرور کیا کہ وہ ویرات کوہلی کی گرل فرینڈہے۔اس کا یہ عمل اخلاقی طور پر درست نہیں۔
جب وہ بہت اداس ہوتا تو کامریڈ جان محمد اس کی دل جوئی کے لیے کہتا کہ ہم کو دیکھو۔ہم نے بھٹو کو لیاری میں کنگ بنادیا۔بیگم بھٹو بولا تھا ہم تم کو کراچی کا پہلا لارڈ مئیر بنائیں گے۔اس کے جلسے میں ہم اور واجہ کریم داد ساتھ لیوا (بلوچی ڈانس)کرتے تھے۔واجہ تو ایم این اے بن گیا مگر تیرا بھائی اب بھی وہی پرانی پھٹ پھٹی (موٹرسائیکل کو وہ اب بھی پھٹ پھٹی پکارتا تھا) پر آتا جاتا ہے ،باپ کے گھر میں رہتا ہے۔
اس پر باپو مدثر روہانسا ہوکر کہتا استاد کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کا اتنا غم نہیں۔بال گرنے کی وجہ سے بیگم بھی اب ایسی تعریف کی نظر سے نہیں دیکھتی۔اس اظہار محرومی کے بعد وہ کامریڈ سے فرمائش کرتا کہ وہ کسی ذکری جادوگر(لیاری میں بسنے والا ایک فرقہ جن کے ہاں Voodoo اور اسلام کا بہت عجیب سا ملا جلا ایک عقیدہ رائج ہے۔وہ اپنی عبادت گاہ کو ذکر خانہ کہتے ہیں) اسے کوئی بالوں کا ٹوٹکا لادے۔ اس پر کامریڈ نے اسے ایک ایسی موثر اور پتھرپر لکیر قسم کی دلیل دی کہ یہ فکر اس کے دل و دماغ سے یکسر غائب ہوگئی۔وہ کہنے لگا کہ اگر ٹوٹکوں سے بال اُگ آتے تو پرنس کریم آغا خان، پرنس فلپ، ذوالفقار علی بھٹو،نواز شریف ،قائم علی شاہ اور چوہدری نثار گنجے نہ ہوتے۔ ان کے پاس تو بہت دولت اور ایک سے بڑھ کر ایک پاور فل Contactsہیں۔اس انکشاف کے بعد باپو مدثر نے چوہدری نثار کو زیادہ ہی غور سے دیکھنا شروع کردیا۔جب اسے یقین ہوگیا کہ چکری کا چودھری واقعی وگ لگاتا ہے تو اس نے پیپلز پارٹی والی لائن پکڑ کر کہنا شروع کردیا کہ’’ جو بھی مرد وگ لگائے سمجھوو وہ فیک اور جھوٹا ہے‘‘۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں