میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈریپ میں عہدوں کی بندر بانٹ کی بدترین مثالیں

ڈریپ میں عہدوں کی بندر بانٹ کی بدترین مثالیں

ویب ڈیسک
منگل, ۲۶ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل)عوام تک معیاری اور موثر ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قائم ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اندرونی معاملات میں بھی ہردرجے اور مرحلے میں جعلسازی کا عمل دخل ہے جن میں اقربا پروری کی بنیاد پر تبادلوں اور تقرریوں کا معاملہ بھی شامل ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کو موصول ہونے والی شکایت کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارتی نے تمام تر قواعد کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وفاقی ڈرگ انسپکٹر جیسے اہم اور مخصوص تجربے کے متقاضی عہدے پر نئے بھرتی ہونے والے ناتجربہ کار افسران کو تعینات کردیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے ریگولیشن اینڈ کو آڑڈینیشن دفتر سے ایک آفس آرڈر 17؍مئی 2017کو جاری ہوا، جس کا عنوان تھا’ تبادلے/تقرریاں۔ اس آفس آرڈر کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں بہ حیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر(RO-12) کام کرنے والے چھ ملازمین کو وفاقی ڈرگ انسپکٹر کی اضافی ذمہ داریاں تفویض کردی گئیں۔


وفاقی ڈرگ ا نسپکٹرز کی نامزدگی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی نہیں۔ لہٰذا چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈریپ کو اس نوٹی فکیشن کو فورا ختم کرنے اوران تمام اقسام کے انسپیکشن( لائسنس کی منظوری، اضافی سیکشن کی منظوری، ایچ اینڈ او ٹی سی مینو فیکچرنگ یونٹس وغیرہ وغیرہ)کو غیر موثر قرار دے دینا چاہیے جو کہ ان غیر قانونی اور ان کوالیفائیڈ افسران کی جانب سے کیے گئے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس غیر قانونی اقدام کے خلاف ایک انکوائری بھی کی جانی چاہیے۔ 


اس دفتری حکم نامے کے تحت اسسٹنٹ ڈائریکٹر انعم سعید کو FID-VIIلاہور، اسسٹنٹ ڈائریکٹرعظمی برکات کوFID-VIIIلاہور، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کرش کوFID-کراچی، اسسٹنٹ ڈائریکٹرمہوش تنویر کو FID-VII کراچی، اسسٹنٹ ڈائریکٹرحسن افضل کو FID-IIIاسلام آباد اور اسسٹنٹ ڈائریکٹررضیہ اکرام کوFID_IVاسلام آباد کی اضافی ذمہ داریاں تفویض کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ آفس آڈر کے مطابق ان افسران کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ 2012 کی شیڈول V کی کلاز(a)تا (e) اور ڈرگ ایکٹ 1976کی سیکشن18کے تحت وفاقی ڈرگ انسپکٹر کے اختیارات دیے گئے۔ یہ آفس آرڈر اسسٹنٹ ڈائریکٹرایڈمن ٹوحمزہ زبید ملک کے دستخط کے ساتھ جاری ہوا۔اس حکم نامے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی اور من پسند افراد کو نوازنے کے لیے تمام تر قواعد و ضوابط کو ایک طرف رکھتے ہوئے ناتجربہ کار اور نئے بھرتی ہونے والے ان اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو وزارت صحت میں وفاقی ڈرگ انسپکٹر جیسے اہم عہدے پر تعینات کردیا گیا۔


وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کے پاس مطلوبہ قابلیت اور متعلقہ تجربہ ہے اور نہ ہی وہ جی ایم پی کمپلائنس کا تجزیہ کرنے کے اہل ہیں ، اس سے معصوم مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں


ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا عکس

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور وزارت صحت کی اس سنگین غفلت پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو ایک درخواست موصول ہوئی جس کی بنیاد پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئر مین سہیل مظفر نے 24؍جولائی2017کو وفاقی سیکریٹری وزارت صحت حکومت پاکستان کو لکھے گئے ایک خط میں تبادلوں اور تقرریوں میں ہونے والی ان سنگین بے قاعدگیوں کی جانب توجہ دلوائی ۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ایوب شیخ کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ ’ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو شکایت موصول ہوئی ہے کہ ناتجربہ کار اور نئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو وزارت صحت میں وفاقی ڈرگ انسپکٹر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے جو کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس خط میں موصول ہونے والی شکایت میں درج ذیل الزامات بھی شامل کیے گئے، جس کے مطابق؛
1۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کی منظوری سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن حمزہ زاہد ملک نے سترہ مئی 2017کو ایک غیر قانونی آفس آرڈر جاری کیا ۔ ریفرنس نمبر F-1.1/2017 Addl Dir ( QA & I.T) کے ذریعے چھ اسسٹنٹ ڈائریکٹرز (RO 12) کووفاقی ڈرگ انسپکٹر کے طور پر تعینات کرنے کے احکامات جاری کیے۔
2۔یہ آفس آرڈر غیر قانونی اور ڈرگ ایکٹ1976کے خلاف ہے۔
3۔یہ آفس آرڈر صرف ان اسسٹنٹ ڈائریکٹرز سے متعلق ہے جنہیں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے گزشتہ سال ہی بھرتی کیا گیا ، اور انہیں وفاقی ڈرگ انسپکٹر کی اضافی ذمہ داریاں دی گئیں ، جب کہ ان فریش گریجویٹ کو اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
4۔اس آفس آرڈر نے معصوم لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق کردیے، کیونکہ یہ عہدہ انتہائی ایمان داری اور تجربے کا متقاضی ہے اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ کے تحت وفاقی ڈرگ انسپکٹر کی ذمہ داریاں کچھ اس طرح ہیں :
5۔عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے معیاری ادویات کی فروخت کی پروڈکشن کو یقینی بنانا۔
6۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کو جی ایم پی ( گڈز مینوفیکچرنگ پریکٹس)کے مطابق ادویات کی تیاری کے لیے تکنیکی مشورے دینا اور ادویہ ساز اداروں کے کام کرنے کے ماحول اور ادویات کے معیار میں بہتری لانا۔
7۔ڈرگ ایکٹ میں وضع کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق مارکیٹ میں فروخت کے لیے جانے والی ادویات کے بہتر معیار کو یقینی بنانا اور مختلف مرحلوں پر ان کی نگرانی کرنا۔
8۔ادویات کے نقصان دہ رد عمل کی مانیٹرنگ کے لیے پروگراموں کے انعقاد اور ان کے انتظام میں معاونت کرنا۔
درج بالا بیان کی گئی تمام ذمہ داریاں ایک وسیع تجربے کی محتاج ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وفاقی ڈرگ انسپکٹر کی تقرری کے اصول میں درج ذیل قابلیت کا ہونا لازم ہے؛
وفاقی ڈرگ انسپکٹرایسے فرد کو ہونا چاہیے ، جس کے پاس وفاقی حکومت کے منظور شدہ انسٹی ٹیوشن یا جامعہ سے کلیہ فارمیسی کی ڈگری کے ساتھ مجموعی طور پر مینو فیکچرنگ ٹیسٹنگ ، ڈرگ اینالیسز اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں کم از کم دس سال کا تجربہ ہونا چاہیے۔ تجربے میں رعایت صرف ان امیدواروں کو دی جاسکتی ہے جن کی قابلیت بہت زیادہ ہو یا امیداوار کا مطلوبہ تجربہ فوراًدستیاب نہ ہو۔ جب کہ نئے تعینات کیے گئے ان چھ وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کے پاس نہ ہی مطلوبہ قابلیت ہے، نہ ہی کسی قسم کا متعلقہ تجربہ ہے اور نہ ہی وہ جی ایم پی کمپلائنس کا تجزیہ کرنے کے اہل ہیں ، جو کہ معصوم مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی ڈرگ ا نسپکٹرز کی نامزدگی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی نہیں۔ لہذا چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈریپ کو اس نوٹی فکیشن کو فورا ختم کرنے اوران تمام اقسام کے انسپیکشن( لائسنس کی منظوری، اضافی سیکشن کی منظوری، ایچ اینڈ او ٹی سی مینو فیکچرنگ یونٹس وغیرہ وغیرہ)کو غیر موثر قرار دے دینا چاہیے جو کہ ان غیر قانونی اور ان کوالیفائیڈ افسران کی جانب سے کیے گئے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس غیر قانونی اقدام کے خلاف ایک انکوائری بھی کی جانی چاہیے ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ان تمام تر الزامات کی غیر جانب دارانہ تحقیق کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ تمام تر الزامات درست ہیں تو پھر معصوم مریضوں کی زندگی کو سنگین خطرات سے دوچار کرنے پر اس غیر قانونی آفس آرڈر کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے اس کے ذمہ دار تمام افسران اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے نئے بھرتی کیے گئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو وفاقی ڈرگ انسپکٹر کے عہدے پر تعیناتی میں قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کے جواب میں وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کو آرڈی نیشن کے سیکشن آفیسرمحمد سعید اعوان نے 28؍اگست 2017ء کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئر مین سہیل مظفر کو ایک وضاحتی خط( F-4-59/2016-DRAP/NHS,R&C)لکھا۔ ( جاری ہے )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں