بھارت کا یومِ جمہوریہ اور کشمیر
شیئر کریں
میمونہ صدف
اگرچہ پاکستان اور بھارت ۱۹۴۷ء میں برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کر چکے تھے تاہم بھارت میں پہلی بار ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء میں ہندوستان کا اپنا آئین نافذ کیا گیا ۔ اس دن کو بھارت میں یومِ جمہوریہ کے طورمنایا جاتا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا اور جمہوریت کا پرچار کرنے والاملک اپنے ہی ملک میں مختلف مذاہب کے افراد کو دوسرے مذاہب کے استحصال سے بچانے میں ناکام رہا ہے ۔ جمہوریت کے علم بردار بھارت کا مکروہ چہرہ اس وقت مزید واضع ہو جا تا ہے جب دنیا کی نظریں کشمیر کی جانب اٹھتی ہیں ۔
ماضی قریب میں ۸ جولائی ۲۰۱۶ء سے جنوری ۲۰۱۸ء کے حقائق کسی بھی باشعور انسان کے دل کو دہلا دینے کے لیے کا فی ہے ۔شہید ہونے والے افراد کی تعداد ۱۷۲ جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ۲۰۷۶۷ تک جا پہنچی ۔ جبکہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے زخمی ۸۳۵۳ ہوئے جن میں ۷۳ افراد مکمل طور پر اندھے پن کا شکار ، ۲۰۷ افراد کی ایک آنکھ ضائع ہوئی ، ۹۷۴ کسی بھی وقت بینائی سے کھوسکتے ہیں ۔۱۸۶۳ افراد کی آنکھیں متاثر ہو ئیں ، خواتین سے ریپ کے ۷۵۱ واقعات وقوع پذیر ہوئے ۔۶۵۷۵۳ مکانات تباہ ہوئے ۵۳ ا سکولوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔ کل ۱۸۸۷۶ شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار افراد کی تعداد ۸۱۸ تک جا پہنچی ۔شہید ہونے والوں میں بچے ، عورتیں بوڑھے سبھی شامل ہیں ۔
کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم اتنہا کی تما م حدوں کو پار کر چکے ہیں ۔خصوصا کشمیر کے ایک نوجوان راہنما برہان وانی جن کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا کی شہادت نے تحریک آزادیِ کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔بھارت نے برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں پہلی بار پیلٹ گنوں کا استعمال کیا جس کی وجہ سے مظاہرین میں سے بیشتر کو اپنی بینائی کھونا پڑی ۔ وادی کشمیر میں اکثر و بیشتر کرفیو لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے مطابق گذشتہ دو برس میں کل ۷۳۰ دن مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کیا گیا ۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ہر دن کرفیو ہی میں گزرتا ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کہا ں سے ان پر کوئی الزام لگا کر بھارتی افواج ان کو گرفتار کر لیں یا ان کے بیٹوں کو گھروں سے نکال کر شہید کر دیا جائے اور ان کی لاشیں بعد میں کسی نالے یا گلی میں پڑی ملیں ۔
بھارت میں اس سال بھی یوم جمہوریہ کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ منانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔جہاں بھارت کے مختلف صوبوں میں یومِ جمہوریہ کی تیاریا ں اپنے عروج پر ہیں ،لیکن یہی یوم جمہوریہ مقبوضہ کشمیر کے مکینوں کے لیے وبالِ جان بن چکا ہے ۔ یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کی صورت میں منانے سے روکنے کے لیے بھارتی افواج اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہیں ۔ بھارتی افواج کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر کے عوام کی آواز عالمی سطح پر دبائی جا سکے ۔ بھارت میں منایا جانے والا یوم جمہوریہ کشمیر میں ہر سال یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ ہر سال اس مخصوص دن کو کشمیر میں قیامت کی گھڑی بر پا کی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کی کوئی کوشش اس ضمن میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ۔ کشمیر کی تحریک آزادی ابھی تک جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ کشمیر آزاد نہ ہو جائے ۔
کشمیری عوام اور راہنماؤں نے اس سال بھی ۲۶ جنوری کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دخترانِ ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی نے عوام سے اپیل کی کہ ۲۶ جنوری کو کشمیر میں یومِ سیاہ کے طور پر منایا جائے ۔ اس دن گھروں پر سیاہ پرچم لہرائے جائیں ۔ اس سے دنیا کو واضع پیغام جائے گا کہ کشمیر پر بھارتی تسلط غیر قانونی ہے اور ریاست کے عوام کے کسی صورت قبول نہ کریں گے ۔ان کی اپیل کے ساتھ ہی کشمیرکے مختلف علاقوں میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے ۔ پورے کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے جگہ جگہ محاصرے اور ناقہ بندی شروع کر دی گئی ۔ بھارتی فوج کی غنڈا گردی اور درندگی اپنے عروج پر جا پہنچی ہے ۔ پلوامہ کے علاقہ چند گام میں قابض فوج کا سرچ آپریشن جاری ہے ۔ بڑے پیمانے پر شہریوں کی پکڑ دھکڑ نے بھارتی افواج اور کشمیری عوام کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔ بھارتی افواج کی جانب سے پلیٹ گنوں ، زہریلی اور آنسو گیس ، پاوا شیلنگ کا اندھا دھند استعمال کیا گیا ۔ متعدد شہری لہولہان کر دئیے گئے ۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم شاید خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کے لیے تیارہیں تاہم مذاکرات کا مرکزی نقطہ کشمیر ہونا چاہیے ۔بھارتی افواج کی جانب سے کنڑول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضلع پونچھ کے مقام پر فرنگ کھول دی جس کا جواب پاک فوج کی جانب سے دیا گیا ۔
جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے ۔ بھارت اگر جمہوریت کا دعوے دار ہے تو اسے کشمیر میں بھی کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس مسئلہ کو امن سے حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔