پاکستان اسٹیل کی زبوں حالی،خسارہ 350بلین تک جا پہنچا
شیئر کریں
ملازمین کو اکتوبر 2016 سے اب تک تنخواہ کے نام پر ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیاگیا
ادارے کی تباہی میں بے تحاشہ کرپشن، نااہل انتظامیہ اور حکومت کاتجاہل عارفانہ شامل ہے
ادارے نے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے حکومت سے ساڑھے7کروڑ روپے طلب کرلیے
نچلی سطح کے ملازمین کے لیے مفت بجلی کی سہولت سے افسران بھی استفادہ کرتے رہے
ایچ اے نقوی
پاکستان کی مایہ ناز فولاد ساز کمپنی ملک کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل ان دنوں کسمپرسی کا شکار ہے،دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بننے والے اس ادارے کی زبوںحالی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ اس ادارے کی بھٹیاں جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی تھیں اس کے بیمار قرار دیے گئے یونٹ مکمل طورپربند پڑے ہیں،اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ادارے کے ملازمین کو اکتوبر 2016سے اب تک تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکی ہیں۔لیکن پاکستان اسٹیل کی اس زبوں حالی کے باوجود اس کے عملے اور افسران کی جانب اس کے باقی رہ جانے والے وسائل سے ایسی مراعات کاحصول بھی جاری ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا،مثال کے طورپر سابقہ دور میں جب یہ ادارہ منافع کمارہاتھا اور اس کے اکاﺅنٹ میں کروڑوں روپے ہوتے تھے تو اس کے نچلے درجے کے ملازمین کو 150 یونٹ تک بجلی مفت دینے کامعاہدہ کیا گیاتھا ۔یہ معاہدہ ادارے کے صرف نچلے درجے کے ان ملازمین کے لیے تھا جو کم اجرتوں کے اعتبار سے ٹریڈ یونین کے رکن تھے لیکن اس معاہدے کے تحت نہ صرف یہ کہ اس ادارے کے 12 ہزار سے زیادہ ملازمین اب بھی اس سہولت کافائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بجلی کے بلوں کابوجھ اس ادارے پر ڈال رہے ہیں بلکہ ان ملازمین سے کیے گئے معاہدے کاسہارا لے کرادارے کے اعلیٰ افسران نے بھی اپنے گھریلو استعمال کی بجلی کے بھاری بلوں کی بھی ادارے سے وصولی کاسلسلہ شروع کردیا جو تاحال جاری ہے جس کی وجہ سے ادارے پر لاکھوں روپے ماہانہ کا بوجھ بڑھتاچلاجارہا ہے۔
اس صورتحال کاانکشاف نجکاری ڈویژن کی جانب سے تیار کی گئی ایک رپورٹ میں کیاگیاہے،جو 18 جنوری کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں زیر غور آئی تھی،نجکاری ڈویژن کی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ نجکاری کمیشن کی جانب سے ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں لیکن ادارے کے روزمرہ کے اخراجات ادارے کے موجودہ اسٹاک کی فروخت اور دیگر ذرائع سے ہونے والی آمدنی کے ذریعہ پورے کیے جارہے ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو اکتوبر 2016 سے اب تک تنخواہ کے نام پر ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیاگیاہے جس کی وجہ سے بیشتر نچلے درجے کے ملازمین کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑجانے کا اندیشہ ہے۔اس سے قبل دسمبر2016 کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو اگست اور ستمبر کی تنخواہیں اداکرنے کی منظوری دی گئی تھی اور ادارے کے ملازمین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی تفصیلات تیار کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ اطلاعات ، ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کی وزیر مملکت انوشا رحمان نے بتایا تھا کہ ادارے نے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے ساڑھے7کروڑ روپے طلب کیے ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظرملک کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل ایک مرتبہ پھر نجکاری کے لیے ترجیحی فہرست میں شامل کرلیاگیا ہے۔اس کی فروخت کاعمل جلد از جلد مکمل کرلینے کاپروگرام بنایاگیاہے، اطلاعات کے مطابق اس کی فروخت کے حوالے سے چین اورروس میں روڈ شو ہوچکے ہیں۔
اس سے قبل سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی جانب سے بھی پاکستان اسٹیل ملز کو سعودی عرب کی زیر قیادت ایک کنسورشیم کو 21.6 بلین روپے میں فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جون 2006 میں سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے اس کی فروخت کو رکوادیاتھا،سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد نجکاری کا پورا عمل کم وبیش 8سال تک منجمدرہا۔اب اس ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز اورمشترکہ مفادات کی کونسل کو اس کی نجکاری کے لیے عدالت کے نئے فیصلے کی ضرورت ہوگی۔
2008 کے آخر تک پاکستان اسٹیل کے مجموعی خسارے اور واجبات کااندازہ 26 بلین روپے لگایاگیاتھا جو اب بڑھ کر 350 بلین تک جاپہنچا ہے جس میں نقصان 160 بلین اور قابل ادا واجبات 190 بلین روپے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت مختلف اوقات میں اس ادارے کو تباہی سے بچانے کے لیے اسے بجٹ سے ہٹ کر 85 بلین روپے دے چکی ہے۔وزارت صنعت کے سیکریٹری نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو اس ادارے کی موجودہ صورت حال کے اسباب کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں بے تحاشہ کرپشن، ادارے کے کرتا دھرتاﺅں کی نااہلی، ضرورت سے زیادہ ملازمین کابوجھ اور اس کی بحالی کے حوالے سے حکومت کاتجاہل عارفانہ شامل ہے۔
اس رپورٹ کو ایک مالیاتی مشیر پاک چین سرمایہ کاری بینک کی رپورٹ سے تقویت ملتی ہے جسے رپورٹ کی تیاری کے حوالے سے چین کے سینو اسٹیل کا جزوی طورپرتعاون حاصل تھا ۔اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پاکستان اسٹیل کو وہ تمام تجارتی مواقع حاصل ہیں اور اس میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جس کی ایک علاقائی صنعتی یونٹ خواہش یا توقع کرسکتاہے ۔اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اس کی مشینری میں بھی کوئی نقص نہیں ہے اصل خرابی اس کو چلانے والوں میں ہے۔
مالیاتی مشیر نے حکومت کو بتایا تھا کہ اگر مل کا نیا خریدار 3 مراحل میں اس ادارے میں کم وبیش 888ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے اور اسے بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنادیاجائے اور اس کی انتظامیہ کے بعض ارکان کو ہٹادیاجائے تو یہ ادارہ دوبارہ منافع کمانے کے قابل ہوجائے گا اور منافع کمانا شروع کرسکتاہے۔
پاکستان اسٹیل کی فروخت کے حوالے سے یہ رپورٹ 165 صفحات پرمشتمل ہے۔مالیاتی مشیر نے اس ادارے کو منافع بخش بنانے کے لیے 3مراحل میں 888 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کامشورہ دیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں موجودہ یونٹ کو بحال کرکے اس کی 1.1 ملین ٹن سالانہ کی گنجائش کے مطابق پیداوار کاحصول ہے،مالیاتی مشیر کے مطابق دوسرے مرحلے میں 300.4 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے سالانہ پیداواری گنجائش کو 2 ملین ٹن کرنا ہے۔جبکہ تیسرے مرحلے میں 296.62 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے اس کی پیداواری گنجائش کو3 ملین ٹن کرنا ہے۔مالیاتی مشیر نے مشورہ دیا ہے کہ نئے خریدار کو 51 فی صد شیئرز منتقل کرکے ادارے کی انتظامیہ نئے خریدار کے حوالے کردی جائے۔کیونکہ ادارے کی موجودہ انتظامیہ ادارے کی بحالی اور اسے منافع بخش بنانے کے اس مرحلہ وار پروگرام پر عملدرآمد کرنے اور کرانے کی اہل نہیں ہے۔اس لیے خریدار کو ادارے کاانتظام سنبھالتے ہی نئی انتظامیہ اور نئی ٹیکنیکل ٹیم کاتقرر کرناہوگا ۔حکومت کو یہ بھی مشورہ دیاگیا ہے کہ ادارے کو نئے خریدار کے حوالے کرنے کے بعدبھی اس کو دی جانے والی ٹیکسوں میں رعایت اور دوسری سہولتوں کی فراہمی جاری رکھی جائے تاکہ ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کیاجاسکے اوراس کی مصنوعات کامعیار برقرار رکھاجاسکے۔
فیلڈ کے سروے اور پاکستان اسٹیل کے حوالے سے ڈیٹا کی چھان بین اور طویل بحث ومباحثے کے بعد مالیاتی مشیر نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ایک عظیم ادارہ ہے اور اسے پوری گنجائش کے مطابق چلانے اور اس سے پیداوار حاصل کرنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور پورٹ قاسم کے قریب ہونے کی وجہ سے اس ادارے کو نقل وحمل کی شاندار سہولتیں حاصل ہیںجس کی وجہ سے اس کے درآمدشدہ خام مال اورایندھن کی مال برداری کے اخراجات بہت کم ہیں۔دوسری جانب ملک میں اسٹیل کی کھپت میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے اور اس وقت ملک کی اسٹیل کی 40 فیصد ضروریات درآمدات کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔
مستقبل میں اس ادارے کی ترقی کے امکانات بھی بہت نمایاں ہیں کیونکہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر تعمیراتی صنعت روز افزوں ترقی پذیر ہے، ملک میں انفرااسٹرکچرخاص طورپر پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کا کام شروع ہونے اورموجودہ جاری کام میں آبادی اور جی ڈی پی میں اضافے کے ساتھ مزید تیزی آنے کاامکان موجود ہے۔
پاکستان اسٹیل کو اپنی مصنوعات کے معیار کی حیثیت سے بھی فوقیت حاصل ہے کیونکہ ملک میں بڑی تعداد میں موجود چھوٹی اسٹیل ملوںاور اسٹیل رولنگ پلانٹ کی مصنوعات کا معیار زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔اس کے علاہ پاکستان اسٹیل ملک کاواحد ادارہ ہے جو بڑے پیمانے پر لوہے اور فولاد کی مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اوراسے اسٹیل کی درآمدات کے حوالے سے حکومت کی جانب سے ٹیرف کی چھوٹ اوربیرون ملک سے درآمد کردہ اسٹیل پر ٹیرف کے نفاذ کی وجہ سے دوسروں پر فوقیت حاصل ہوگی جس کی وجہ سے مقامی ادارے کم قیمت غیر ملکی اسٹیل استعمال نہیں کرسکیں گے۔
رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ پاکستان اسٹیل کے بڑے اکوئپمنٹ فرسودہ ہوچکے ہیں اس کا کنٹرول سسٹم مکمل طورپر ناکارہ ہوچکا ہے،اور اس کی سنٹر مشین ،بلاسٹ فرنس اور کاسٹنگ کی مشینیں یا تو اپنی عمر پوری کرچکی ہیں یا ناقابل مرمت ہوچکی ہیں۔
2008-09 سے یہ ادارہ مسلسل نقصان میں چل رہاہے جس کی وجہ سے اس کے مجموعی نقصان کی مالیت اس کے مجموعی اثاثوں کے 87فیصد کے مساوی ہوچکی ہے۔اس ادارے کے کم وبیش 79 فی صد اثاثے زمینوں کی شکل میں ہیں،اس طرح اس کے واجبات کی مالیت اس کے اثاثوں سے بڑھ چکی ہے۔مالیاتی مشیر نے مارچ میں ادارے کے اثاثوں کی مالیت کااندازہ 280 بلین اور واجبات کااندازہ 174 بلین لگایاتھا۔