لڑتے لڑتے ہوگئی گم ۔۔۔۔۔۔۔ایک کی چونچ اور ایک کی د±م
شیئر کریں
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے ارکان گتھم گتھا
حکومت مخالف نعرے پر شاہد خاقان نے شاہ محمود سے اپیل کی ، پی ٹی آئی ارکان شاہد خاقان پر جھپٹ پڑے
پیپلزپارٹی نے ابتدائی طور پر صلح صفائی کی کوشش کی ،پھرجلد ہی خاموش تماشائی بن گئی
شاہد خاقان عباسی نے گالیاں دی تھیں، عارف علوی ۔اسپیکر قومی اسمبلی ایوان کی کارروائی معطل کرنے پر مجبور
نجم انوار
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ شرمناک دن تھا جب ارکان اسمبلی گتھم گتھا ہوگئے۔ حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف اور حکومتی جماعت مسلم لیگ نون کے مابین قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی ہاتھا پائی نے اس تاثر کو مستحکم کردیا کہ دونوں جماعتوں میں پاناما لیکس کے حوالے سے ایک دوسرے کے لیے صبر اب ختم ہونے لگا ہے۔ اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اب دلائل کی جنگ ہار کر ایک دوسرے کے خلاف ناقابل برداشت اقدامات کی طرف مائل ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اور وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی گتھم گتھا ہوگئے یہاں تک کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ایوان کی کارروائی معطل کرنی پڑی۔ اطلاعات کے مطابق ایوان میں لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ارکان نے اسپیکر سے وزیراعظم کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرانے کی اجازت مانگی۔ اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران میں یہ معاملہ ا±س وقت سنگین صورتِ حال اختیار کرگیا جب تحریک انصاف کے ارکان نے حکومت اور وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نعرے بھی لگانا شروع کردیے۔ جس پر وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اپنی نشست سے اٹھ کر شاہ محمود قریشی کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی جماعت کے ارکان کو قابو میں رکھیں۔مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ بعد ازاں بھی جاری رہا۔ جس پر شاہد خاقان عباسی ایک مرتبہ پھر شاہ محمود قریشی کے پاس گئے مگر اس مرتبہ ا±نہیں ا±ن کے قریب نہ جانے دیا گیا اور درمیان تحریک انصاف کے دیگر ارکان اپنی اپنی نشستوں سے ا±ٹھ کر آگئے۔ اس صورتِ حال نے فضا مکدر کردی۔ اور تحریک انصاف کے ارکان شہریار آفریدی اور مراد سعید آپس میں لڑ پڑے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں ارکان شاہد خاقان عباسی کی طرف جھپٹ پڑے۔ جس کے بعد دیگر ارکانِ اسمبلی بھی اس جھگڑے میں ملوث ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق اس لڑائی میں پیپلزپارٹی نے ابتدائی طور پر صلح صفائی کی کوشش کی مگر پھر وہ ایک دم اس دنگل سے باہر نکل گئی۔ اور اس لڑائی میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے لگی۔ ایوان اس پورے عرصے میں مچھلی بازار کا منظر پیش کررہا تھا۔
تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے اس پر یہ موقف اختیار کیا کہ شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف نازیبا جملے استعمال کیے۔ جس پر تحریک انصاف کے ارکان خود پر قابو نہ رکھ سکے۔ تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف عارف علوی نے اس حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا کہ شاہد خاقان عباسی نے گالیاں دی تھیں۔ اور مسلم لیگ نون کے ارکان نے تحریک انصاف کی خواتین کے سامنے نازیبا اشارے کیے تھے۔
قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کےمحرکا ت جو بھی رہے ہو، مگر یہ بات بالکل واضح تھی کہ ارکان اسمبلی کسی کے قابو میں نہ آرہے تھے۔ ارکان کی ایک دوسرے پر مکوں کی بارش میں اسپیکر نے سیکورٹی گارڈز کو بلا یا۔اسپیکر کی جانب سے ارکان کو باربار پرامن رہنے کی اپیل کا جب خاطر خواہ اثر نہ پڑا تو اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی پندرہ منٹ کے لیے معطل کردی۔ جماعت اسلامی نے اس صورت حال میں اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمو د قریشی نے پارلیمنٹ سے باہر آکر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف واقعے کی ذمہ داری حکومتی وزیر پر ڈالی بلکہ ا±ن پر تحریکِ انصاف کے ارکان پر حملے کا الزام بھی عاید کیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ دنگل کی اصل وجہ پانامالیکس ہی تھی۔شاہ محمود قریشی کےمطابق ا±نہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے درخواست کی تھی کہ وہ تحریک استحقاق پیش کرنے والے ہر رکن کو بولنے کے لیے دو دو منٹ دیں جس کے بعد حکومت اپنا موقف پیش کرے۔
قومی اسمبلی میں گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی کا ماحول بتدریج پیدا ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ دسمبر میں بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان میں اسی نوع کی ایک جھڑپ دیکھنے میں آئی تھی جب اسپیکر کی جانب سے حکومتی بینچ سے وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کو بولنے کی اجازت ملنے تحریک انصاف نے ہنگامہ آرائی کا ماحول پید اکردیا تھا۔
تحریک ِ انصاف کے 2014 کے پہلے دھرنے سے واپسی پر ا±نہیں مسلسل طنز و تحقیر کا ہدف بننا پڑا ہے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے اپنی ایک مشہور تقریر میں تحریک انصاف کو "کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیاہوتی ہے” کے فقروں سے کافی تنقید کا ہدف بنایا تھا۔ جس پر تحریک انصاف چپ سادھے رہی تھی۔ بعدازاں تحریک انصاف کی خاتون رہنما شیریں مزاری کو بھی خواجہ آصف کے منہ سے ایک نہایت ہلکے لفظ کا وار سہنا پڑا تھا جس کی بعدا زاں معافی بھی مانگی گئی تھی۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ اس حوالے سے کچھ خوشگوار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف انتہائی سوقیانہ جملوں کو اچھالنے سے لے کر ا±نہیں طنز کا ہدف بنانے کی بہت پرانی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بہت پراناواقعہ افسوس ناک انجام بھی دیکھ چکا ہے۔ 21 ستمبر 1958 کو مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے اجلاس میں "اسپیکر” کی جانب داری کے مسئلہ پر ایک ہنگامہ ا±ٹھا تھا۔ اور ارکان کی باہمی لڑائی میں کئی ارکا ن زخمی ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ ڈپٹی اسپیکر شاہد علی اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔
دنیا بھر کی پارلیمانی تاریخ اس نوع کے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں ارکان ایک دوسرے پر باقاعدہ حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ ایشیا میں چین ،جاپان اور بھارت کے علاوہ یورپی ممالک اور لاطینی امریکی ممالک میں بھی اس نوع کے واقعات اکثر دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ حکمران جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان نوازشریف پاناما لیکس کے معاملے میں تحریک انصاف کی سخت ترین تنقید کے زد میں ہیں۔ نوازشریف ایک طرف اپنے پورے خاندان کے ساتھ عدالتی دباو¿ میں ہے تو دوسری طرف ا±نہیں سیاسی طور پر مسلسل بدعنوا نی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس نے ا±ن کی اخلاقی اساس کو کمزور کردیا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اس دباو¿ میں دکھائی دیتی ہے کہ اگر ا± ن کی مسلم لیگ نون کے خلاف مسلسل محاذآرائی کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکل سکا تو ا±نہیں مستقبل میں سخت سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا نتیجہ انتخابی ناکامیوں کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ ان حالات کے باعث دونوں جماعتیں اپنے اپنے سیاسی مستقبل کے دباو¿ میں ایک دوسرے کو کوئی بھی گنجائش دیتی دکھائی نہیں دے رہی۔جس کا اثر ات اب عدالتی محاذ سے پارلیمانی محاذ پر بھی پڑرہے ہیں۔