لاڑکانہ کے ایڈیشنل سیشن جج گل ضمیر سولنگی نے سابق چیف جسٹس کے رویے پر استعفیٰ دے دیا
شیئر کریں
منصف ِ اعلیٰ ثاقب نثار کا عدالتی تاریخ میںسب سے بھرپور تنازعات کا دور
٭میاں ثاقب نثار کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سفارش پر ہی ہوئی تھی
٭ ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس ایسے معاملات میں بھی حصہ لیا جو انتظامی امور میں مداخلت اور عمومی طور پر پاپسند کیے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد ثاقب نثار دوسرے چیف جسٹس ہیں جنہیں ذرائع ابلاغ میں رہنے کا سب سے زیادہ شوق تھا۔ وہ عدالت کا حصہ بننے سے پہلے شریف خاندان کے قریب سمجھے جاتے تھے۔یہاں تک کہ میاں ثاقب نثار کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سفارش پر ہی ہوئی تھی۔ سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر آنے کے بعد جسٹس ثاقب نثار ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے پہلے پی سی او کے تحت اُٹھایا ۔ تاہم سابق فوجی صدر کی جانب سے 3؍ نومبر 2007 کو ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد ثاقب نثار نے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا تھا، لیکن ایمرجنسی اٹھنے کے کچھ ہی عرصے بعد پرویز مشرف کے دور میں دوسرے پی سی او کے تحت وہ حلف اُٹھانے والوں میں شامل تھے۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی مخالفت کے باوجود افتخار محمد چوہدری ہی میاں ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں لانے والے تھے جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف سنیارٹی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر تھے۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار عدالتی تاریخ کے اب تک کے واحد جج ہیں جنھیں ان کے فیصلوں سے زیادہ اُن کی ’’غیر نصابی ‘‘ یا ’’غیر عدالتی ‘‘سرگرمیوں کے باعث یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ثاقب نثار ہی تھے جنہوں نے پانی کی کمی کے مسئلے کواپنے عدالتی دور میں برابر موضوع بنائے رکھا، یہاں تک کہ وہ اس حوالے سے مختلف لطیفوں ، چٹکلوں اور طعنوں کا ہدف بنے رہے۔اُنہوں نے بطور چیف جسٹس ایسے معاملات میں بھی حصہ لیا جو انتظامی امور میں مداخلت اور عمومی طور پر ناپسندیدہ تصور کیے گئے۔ان معاملات میںصاف پانی، ہسپتالوں کی صفائی، بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز کی اپیل، ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی، اہم سیاسی اور دیگر شخصیات سے سکیورٹی واپس لینے کے احکامات اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کانفرنس کا انعقادشامل ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے ان امور میں مداخلت کے لیے از خود نوٹسز کا سہارا لیا۔ جسے خود قانونی حلقوں میں بھی پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا۔
یہ ایک عجیب بات تھی کہ اُنہوں نے اپنے دور میںاتوار کی چھٹی بھی ختم کردی ۔ اور اپنی عدالت اتوار کے روز بھی مستقل لگائی مگر اُن کے دور میں زیرالتوا مقدمات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی گئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے یہ عہدہ سنبھالا تو سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 32 ہزار تھی اور جب وہ رخصت ہوئے تو یہ تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد از خود نوٹس کا سب سے زیادہ استعمال کرکے انتظامی معاملات میں مداخلت کے مرتکب جسٹس ثاقب نثار ہوئے۔ اُنھوں نے بطور چیف جسٹس 43 معاملات پر از خود نوٹس لیے ۔ سابق چیف جسٹس کے عدالتی فیصلوں پر تنقید صرف وکلاء برادری کی جانب سے نہیں ہوئی بلکہ اُن کی عدالتی کارروائی چلانے کے انداز سے خود اُن کے ساتھی جج صاحبان بھی ناخوش رہے۔ جن میںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے واقعے سے متعلق از خود نوٹس کے معاملے پر قاضی فائز عیسیٰ نے برملا اختلاف کیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کچھ عرصے کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ اُنھیں اس بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا اور چیف جسٹس یعنی میاں ثاقب نثار کا عمل غیر قانونی تھا۔ان اختلافات کے باعث ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بہت کم اس بینچ کا حصہ بنتے ہوئے دیکھا گیا جس کی سربراہی چیف جسٹس کرتے تھے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا سلوک ماتحت عدلیہ کے ججز سے بھی کافی موضوعِ بحث بنتا رہا۔ ان کا لاڑکانہ کی ایک بھری عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج گل ضمیر سولنگی کے ساتھ رویہ براہ ِ راست ٹی وی پروگرامز میں موضوع بحث بنا یہاں تک کہ مذکورہ جج نے احتجاجاًاستعفیٰ دے دیا۔
ایسا تو شاید دنیا کی کسی بھی عدالت میں نہ ہوا ہو، جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو ایک مقدمے کی سماعت میں یہ پیشکش کردی کہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک ہزار ارب دیں تو اُن کے تمام مقدمات نمٹا دیے جائیں گے۔ دوسری طرف وہ نیب کے پلی بارگین کے طریقہ کار سے اختلاف بھی کرتے رہے۔ ثاقب نثار کے اس پیشکش کے انداز پر قانونی حلقے ہکا بکا ہوگئے تھے۔ تب ملک ریاض کے مقدمات جس طرح فیصل ہوئے، وہ سب بھی شکوک کے دائرے میں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس ثاقب نثار نے یہ عہدہ سنبھالا تو سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 32 ہزار تھی اور جب وہ رخصت ہوئے تو یہ تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد از خود نوٹس کا سب سے زیادہ استعمال کرکے انتظامی معاملات میں مداخلت کے مرتکب جسٹس ثاقب نثار ہوئے۔ اُنھوں نے بطور چیف جسٹس 43 معاملات پر از خود نوٹس لیے ۔