نواز شریف کو سیاست سے کنارہ کشی کے مشورے
شیئر کریں
وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض پیر زادہ نے نیشنل پریس کلب کے ’’میٹ دی پریس‘‘ پروگرام میں مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت کو ’’مائنس ون‘‘ کا فارمولہ دے دیا ہے انہوں نے یہ بات کسی کے سوال کے جواب میںنہیں کہی ہے بلکہ انہوں نے طے شدہ پروگرام کے مطابق میاں نواز شریف کو ’’سائیڈ لائن‘‘ ہونے اور میاں شہباز شریف کو پارٹی ’’ٹیک اوور‘‘ کرنے کا مشور دیا ہے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو ’’طوفان‘‘ سے ڈرانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ’’طوفان آیا ہوا ہے اس سے لڑنے کی بجائے مصلحت پر مبنی سیاست کی جائے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فی الوقت سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے اس کے گذرنے کا انتظار کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پارلیمنٹیرینز کو آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے بارے میں اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے انہوں نے اس بات پر بھی اصرار کیا ہے کہ ’’وہ کسی کے ایجنٹ ہیں اور نہ ہی کسی کا ایجنڈا لے کر سامنے آئے ہیں‘‘ میاں ریاض پیر زادہ نے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھنے کے بعدوہ پچھلے دو عشروں کے دوران اپنی سیاسی ضروریات کو پیش نظر تین چا ر بار ’’سیاسی ٹھکانے‘‘ تبدیل کر چکے ہیں ان کی کسی سیاسی جماعت سے ’’غیر مشروط‘‘ وابستگی نہیں رہی بلکہ وہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں یہی وجہ ہے بیشتر مسلم لیگی انہیں ’’نو مسلم لیگی‘‘ ہی تصور کرتے ہیں۔ ’’سیاسی کھڑاک‘‘ ان کی سیاست کا طرہ امتیاز ہے ان کی اجازت کے بغیر پاکستان ا سپورٹس بورڈ کے سربراہ اختر گنجیرہ کو معطل کیا گیا تو انہوں نے ’’طوفان‘‘ کھڑا کر دیا جس کے بعد وفاقی حکومت کو اختر گنجیرہ کو معطل کرنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا اسی طرح جب 37 حکومتی ارکان پارلیمنٹ کے دہشت گرد تنظیموں سے رابطوں کے بارے میں آئی بی کی نگرانی کا شوشہ چھوڑا گیا تو یہ ریاض پیرزادہ ہی تھے جنہوں نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پارلیمنٹ میں حکومتی پوزیشن کی وضاحت کرنے پر مجبور کر دیا ۔
میاں ریاض پیر زادہ نے’’ میٹ دی پریس‘‘ پروگرام میں میاں نواز شریف کو جو مشورہ دیا ہے وہ شاید ہی کسی اور مسلم لیگی لیڈر کو دینے کا حوصلہ ہو۔ ممکن ہے کچھ او رمسلم لیگی لیڈر بھی ان ہی خطوط پر سوچتے ہوں لیکن کسی کو اس طرح بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی ،اطلاعات کے مطابق انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ترکی کے دورے پرروانگی سے قبل پنجاب ہائوس اسلام آباد میں چیدہ چیدہ مسلم لیگی رہنمائوں کے ’’غیر معمولی‘‘ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کیا اس اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزرا محمد اسحق ڈار، احسن اقبال اورخواجہ سعد رفیق نے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ پارٹی کو موجودہ بحران سے نکالنے کے بارے میں مشاورت کی اس اجلاس کے انعقاد کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی یہ اجلاس بلانے کا مقصد پارٹی اور حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات کار قائم کرنے کے لیے آئندہ لائحہ عمل تیار کرنا تھا اس اجلاس میں غیر محسوس انداز میں مسلم لیگی قیادت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے ’کہ’مائنس ون‘‘ فارمولہ پر عمل کر کے ہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بہتر تعلقات کار قائم ہو سکتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو کون ’’ اسٹیپ ڈائون‘‘ ہونے کا مشورہ دینے کی جرات کرے گویا بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالنے کا ناخوشگوار فریضہ میاں ریاض پیرزادہ نے ادا کیا سب مسلم لیگی میاں نواز شریف کا ’’مائنڈ سیٹ‘‘ جانتے ہیں میاں نواز شریف نے 10 سال کی جلاوطنی تو قبول کر لی لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ نہیں ملا یا انہیں تیسری بار کس طرح اقتدار سے نکالا گیا ہے پاکستان کا سیاسی سوچ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے ۔
میاں نواز شریف سینیٹ کے ارکان سے مبینہ گٹھ جوڑ اور قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پر انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں شق 203 شامل کر ا کر نہ صرف دوبارہ مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہو گئے ہیں بلکہ انہیں ملکی سیاست سے نکال باہر کرنے والے منہ دیکھتے رہ گئے۔ اب مسلم لیگی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے میاں نواز شریف کو ’’رضاکارانہ‘‘ طور کچھ عرصہ کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلینا چاہیے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، چوہدری نثار علی خان، محمد اسحقٰ ڈار اور خواجہ سعد رفیق فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی کے خلاف ہیں اور وہ پارٹی میں ان جونیئر رہنمائوں کارول کم کرناچاہتے ہیں جو میاں نواز شریف کو تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ موجودہ صورت حال سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلم لیگ ن پر اس وقت انتہا پسند خیالات اور فوج اور اداروں کے ساتھ محاذ آرائی تیز کرنے کے خواہاں ارکان اور رہنمائوں نے نہ صرف یہ کہ میاں نواز شریف کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے بلکہ ان لوگوں کو میاں نواز شریف کی خاموش حمایت بھی حاصل ہے اور نواز شریف ان عناصر کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جو انہیں ان کے مزاج کے مطابق مشورے دیتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ سیاست اور خاص طورپر برصغیر کی سیاست ایک ظالمانہ کھیل ہے،اس خطے کے سیاسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ میں رحم کی لکیر نہیں ہوا کرتی وہ بھائی کو بھی اقتدار کی قربان گاہ پر چڑھا دیتے ہیں ایک طرف ’’زخم خوردہ‘‘ نواز شریف ہیں جو تنہائی میں سوچتے ہوں گے کہ گزشتہ چار سال کے دوران انھوں نے اپنی دولت میں اضافہ کرنے اور اپنے بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے دن رات جو محنت کی تھی وہ سب رائیگاں گئیں اور ان کے تمام منصوبے عمران خان کے دھرنے بہا کر لے گئے اور اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اب خود ان کی پارٹی کے وہ لوگ جو ان کے نام پر قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کو پارٹی پر بوجھ سمجھ کر ان کو کچھ عرصہ تک ’’گوشہ نشین‘‘ ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان پچھلے 4سال سے میاں نواز شریف کو یہ باور کرانے کوشش کرتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کبھی ان کی دوست ثابت نہیں ہو گی جب اسے موقع ملے گا وہ ان کو نقصان پہنچائے گی, ، اور اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار کے اسی مشورے کی بنیاد پر میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی سیاست ترک کرکے محاذ آرائی کی راہ اختیار کی تھی،پیپلز پارٹی کے گھاگ سربراہ آصف زرداری نواز شریف کی اس بے اعتناعی کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے رہے ،لیکن اب جب نواز شریف کو مشکل حالات کاسامنا ہے تو انھوں نے جیسے کو تیسا یعنی ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جیسا تم کروگے وہی ہم کریں گے کے مصداق نواز شریف پر پے درپے حملے شروع کردئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے کئی پیغامات موصول ہونے پر بھی میاں نواز شریف سے ملنے سے انکار دیا بلکہ وہ انہیں ’’نشان عبرت‘‘ بنانے کے لیے غیر مشروط طور پراسٹیبلشمنٹ کی ’’چھتری‘‘ تلے آنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں فوری طورپر گرفتار کرکے جیل منتقل کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف خود بھی ایک زمانے میں اسٹیبلشمنٹ کے ’’لاڈلے‘‘ رہے ہیں لیکن اب وہی اسٹیبلشمنٹ جو انھیں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں منتخب کراکے اقتدار کے سنگھاسن تک لائی تھی اب ان کی دشمن بنی ہوئی ہے اور نیب کی عدالتوں میں شریف خاندان کے خلاف شکنجہ کستا جارہاہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی دائو پیچ کے ذریعے طویل عرصے تک اقتدار کی غلام گردشوں پر قبضہ جمائے رکھنے اورمبینہ طورپر قوم کے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے میاں نواز شریف اپنے خاندان کو اس شکنجے سے کس طرح نکالیں گے ، اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو دھمکیوں اور چمک کے ذریعے مبینہ طورپر اپنی حکومت بحال کرانے میں کامیاب ہونے اور امریکہ اور سعودی عرب کی مدد سے وہ این آر او کاسہارا لے کر دو مرتبہ اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن اس مرتبہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد وہ اب تک امریکی رہنمائوں کو اپنی اہمیت کااحساس دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جبکہ گزشتہ 4سالہ دور حکومت کے دوران ان کی اختیار کردہ پالیسیوں نے انھیں سعودی عرب سے بہت دور کردیاہے اس لیے اب ان دونوں جانب سے انھیں مدد ملنے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔جبکہ کسی بیرونی دبائو کے بغیر اب نواز شریف کی گلو خلاصی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔اس صورت حال سے یہ واضح ہوتاہے کہ جلد یابدیر نواز شریف کو پارٹی کی قیادت سے کنارہ کشی کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہونا ہی پڑے گا لیکن اس کے ساتھہ ہی یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پارٹی قیادت سے نواز شریف کی علیحدگی کے بعد اس پارٹی کومنظم اور متحد رکھنا شاید ممکن نہ ہوسکے۔