نواز شریف کی واپسی میں رکاوٹ
شیئر کریں
اگرچہ مسلم لیگی حلقے اس بات کی پرزور تردید کررہے ہیں لیکن اخباری اطالات کے مطابق نواز شریف کی لندن سے واپسی مشکوک ہوگئی ہے،کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے لندن سے ایک بیان دیا کہ ملک برباد کرنے والے 6 فراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اس مرتبہ مٹی پاؤپالیسی نہیں چلے گی۔ انہوں نے اپنے بیان میں 4 ججوں اور 2 جرنیلوں کے نام لیے، ایک نام سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا بھی تھا۔ نواز شریف کے اس بیان کے بعد جو انھوں نے لندن میں اپنی پارٹی کے جاں نثاروں کے سامنے دیاتھا،اگلے روز شہباز شریف لندن سے پاکستان جا پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق ان کی ملاقات گوجرانوالہ میں کسی بڑے کے نمائندے سے ہوئی جس کے بعد انہوں نے مبینہ طور پر فوری طور پراپنی بھتیجی کے ہماراہ دوبارہ لندن کیلئے اڑان بھر لی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو نواز شریف کے اس بیان پر زبردست ڈانٹ پڑی اور انہیں بتایا گیا کہ فوراً لندن پہنچو، اور بڑے بھائی کو بتا دو کہ ہم نے ان کے نام پر کاٹا لگا دیا ہے۔ اب وہ پاکستان آنے کا خیال دل سے نکال دیں۔ آئے تو پکڑ کر اندر کر دیں گے۔ اس کے بعد شہباز شریف پریشانی کے عالم میں لندن پہنچے اور بڑے بھائی کو بتایا کہ غضب ہو گیا، آپ نے باجوہ کا نام کیوں لیا؟ آپ کے نام پر کاٹا لگ گیا۔ اب کیا ہو گا۔ ایک گروہ کا کہناہے کہ نواز شریف کے نام پر کاٹا لگنے کے بعد دوبارہ عمران خان سے مذاکرات شروع کر دیے گئے ہیں۔ ایک جانی پہچانی شخصیت کو پھر عارف علوی کے پاس بھیجا گیا ہے۔ کچھ معاملات ”ڈن“ ہو گئے ہیں اور کچھ ”دیر ڈ ن“ ہیں۔ سب ڈن ہونے کی دیر ہے، عمران خان کو پھر جیل سے نکال کر وزیر اعظم ہاؤس پہنچا دیا جائے گا۔دوسرا گروہ بتا رہا ہے کہ نواز کے نام پر تو کاٹا لگ گیا، اب شہباز کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، وہ سب کو قابل قبول ہیں، کسی سے لڑتے نہیں، کسی کو ”منع“ تو کبھی کرتے ہی نہیں، ان کی ہاں پسندی پیا کو بھاگئی ہے۔ یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ شہباز کے لندن سے وطن لوٹنے کے بعد لاہور کے نواح میں واقع ایک شہر میں ایک ”اہم ملاقات“ ہوئی ہے۔مبینہ ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو نے شہباز کو فی الفور لندن جانے پر مجبور کیا۔جس ملاقات کا ذکر ہوا اس کی تصدیق یا تردیداس وقت تک نہیں ہوگی جب تک اس حوالے سے کوئی ویڈیو لیک نہ ہوجائے۔اطلاعات کے مطابق شہباز شریف جب وطن لوٹے تو ہمارے ہاں کی وہ قوتیں جنہیں ”مقتدر“ پکارا جاتا ہے ملکی سیاست کے مستقبل کے بارے میں کوئی ”گیم پلان“ تیار کرچکی تھیں۔ شہباز کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ ان میں سے چند جزئیات ایسی بھی ہوسکتی ہیں جن کا براہ راست تعلق نواز شریف کی ذات یا اندازِ سیاست سے ہو۔لاہور پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد شہباز کو لندن کیوں واپس جانا پڑا؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب آپ کو مسلم لیگ (نون) کا کوئی ایک رہ نما بھی دینے کے قابل نہیں۔ ”صلاح ومشاورت“ کا ”عذر“ فقط اسی صورت قابل توجہ قرار پاتا اگر وہ لندن سے واپس آنے کے بعد لاہور میں کم از کم ایک ہفتہ گزار چکے ہوتے۔اس صورت میں یہ جواز گھڑنے کی ٹھوس وجوہات میسر ہوتیں کہ اپنی جماعت کے سرکردہ اراکین سے تفصیلی مشاورت کے بعد مسلم لیگ (نون) کے صدر اپنے قائد اور بڑے بھائی کو ان ارادوں اور جذبات سے آگاہ کرنے لندن واپس گئے ہیں۔
اب حقیقی صورت حال یہ ہے نواز شریف کی 21اکتوبر2023کے دن وطن واپسی کا اعلان ہوچکا ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد وہ یقینا ایک کڑے وقت میں وطن لوٹیں گے۔ ان کی وطن آمد کے فوری بعدپہلا سوال تو یہ اُٹھے گا کہ انہیں ایئرپورٹ پر اترتے ہی گرفتار کیا جائے یا نہیں؟ وفاقی کابینہ سے ”اجازت“ کے بعد وہ لاہورہائی کورٹ سے یہ و عدہ کرتے ہوئے لندن گئے تھے کہ اپنا علاج کروانے کے بعد وہ پاکستان لوٹ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔یہ یاد بھی رکھنا ہوگا کہ انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا اور وہاں سے بعدازاں لندن۔یوں تکنیکی اعتبار سے وہ ”قید“ سے نکال کر باہر بھیجے گئے تھے اور واپسی کے بعد ان کا ”قیدی“ والا مقام بحال کرنا ہوگا۔اس صورت حال میں نگراں وزیراعظم کاکڑ کا یہ بیان کہ تمام سیاسی جماعتوں کوالیکشن لڑنے کے مساوی مواقع دیے جائیں گے اس بیان سے ن لیگ کے حلقوں میں ایک نئی ہلچل مچ گئی ہے کیونکہ ن لیگ کی دانست میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے مد مقابل کسی کو کھڑا ہونے کی جرأت نہ ہو۔نواز شریف نے جب سیاست و اقتدار کی پہلی سیڑھی پر جب قدم رکھا تھا توببانگ دہل یہ دعوی داغ دیا تھا کہ ”میں کاروباری باپ کا بیٹا ہو ں اور ہر شے کی قیمت جانتا ہوں،یہاں تک کہ ہر انسان کی بھی“ پھر انہوں نے سچ مچ یہ ثابت کردیا کہ وہ ججز سے لے کر جرنیلوں تک کوخرید سکتے ہیں،چھانگا مانگا اور مری میں سیاسی منڈیوں میں جوبازار گرم ہوا وہ شاہی مسجد کے پچھواڑے والے بازار میں بھی کبھی اتنا گرم نہیں ہوا ہوگااور اب جو انہوں نے کہا ہے کہ ”مجھ سے لکھوالیں،مجھے چوتھی بار وزیراعظم بننا ہے“، ایسا دعویٰ مک مکا کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے،رہی قیمت تو وہ جتنی بھی ہوانہیں ادائیگی میں پہلے کبھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور نہ اب کوئی دقت نہیں اٹھانی پڑے گی کہ چھوٹا سب حساب کتاب بنا کر دے آیا ہے،رہی سہی کے لیے ہونہار بیٹی 21 ستمبر کو لندن سدھار چکی ہے، ایک تو بیٹی کا داخلہ کروانا تھاکہ جس ملک کی وہ باسی ہیں اس کے تعلیمی ادارے اکیسویں صدی میں بھی اس قابل نہیں ہوئے کہ لوہا کوٹنے والوں کے معیار پر پورے اتر سکیں۔دیال سنگھ کالج میں ریہسلر کی سیٹ پر داخلہ لے کر پڑھنے والا نانا اگر چوتھی بار وزیراعظم کا خواب آنکھوں میں لئے لندن کی گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے تو نواسی کووہاں داخلہ نہیں ملا۔ ہوسکتاہے کہ طویل عرصے تک لندن میں رہنے کے بعد وہ نانا لندن والوں کی قیمت بھی ضرور جان گئے ہوں گے اور ادائیگی کا اہتمام پہلے ہی کئے بیٹھے ہو ں گے۔ بہر حال ان سب کے بیچ کیپٹن صفدر کا پتا ایسا کٹا ہے کہ دور دور کہیں نہیں دکھتا۔ رہیں مریم بی بی وہ نا جانے اپنی زنبیل میں کیا کیا چھپا کر لے گئی ہوں گی،کتنوں کی ویڈیوز اور کتنوں کی آڈیوز ان کا یہ راز ایسا خفتہ ہے کہ کوئی سراغ ہی نہیں پاسکا کہ موکلوں کے ذریعے یہ سب کرواتی ہیں یا کوئی اور ماورائی قوت ان پر اتنی مہربان ہے کہ ان کا یہ راز فاش نہیں ہورہا،اپنے ہوں یا پرائے سب کی نبض ان کی گرفت میں ہے۔ دوسری طرف بلاول زرداری ہیں جن کی باپ کے ساتھ بظاہر ٹھنی ہوئی ہے،بلاول اور زرداری الگ الگ سمت کے سوار نظرآرہے ہیں۔بلاول آئینی مدت میں انتخابات پر اڑے ہوئے ہیں اور زرداری اپنے اقتدار کے راستے کی کٹھنائیاں دور ہونے تک انتخابات میں جانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔پی پی پی کے بڑے آصف علی زرداری کی سیاسی چالوں کے ہم قدم چلنا چاہتے ہیں جب کہ نئے خون کا جھکاؤ بلاول کی طرف ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ زرداری سرخرو ہوتے ہیں یا بلاول کا طوطی بولتا ہے جبکہ پی ڈی ایم اپنے ملبے تلے خود دفن ہوگئی ہے ایسی کہ مولانا تک کا کوئی سراغ یا اتہ پتہ تک نہیں،بلوچستان عوامی پارٹی کو پر لگے ہیں، اب اڑان کہاں تک ہے، ابھی تو امریکہ سرکار کے چرنے چھونے نکلے ہیں۔ نگران وزیر اعظم اس کے بعد اور کتنے سجدے ان پر قرض ہیں یہ ان کی واپسی تک معلوم ہوہی جائے گا۔اس وقت بڑا مسئلہ توقیری کی بھی خبر نہیں جو عام آدمی
کے دلوں میں جگہ پارہی ہے،مقتدرہ اپنے وقار کے کو لاحق خطرات کو محسوس کرنے سے عاری،آٹا،گھی،چینی کا تو خیال دور اذکار کی بات ٹھہری،بجلی،گیس کے بلوں ہی سے جاں خلاصی ہوپائے تو بڑی بات ہے لیکن،کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا،دینی سیاسی جماعتیں ہوں یا خالص سیاسی دھڑے،ایک جماعت اسلامی تن تنہا عام آدمی کے مسائل کا پھریرا لہرارہی ہے اور کچھ اس پر بھی ناخوش ہیں کہ جماعت اسلامی سیاسی عمل پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کر رہی۔ مہنگائی کا رونا رورہی ہے،گویا کہ اب غریب عوام کے مسائل پر دکھ کا اظہار کرنا ان کے حقوق کی بات کرنا بھی ایک جرم ٹھہرا۔ رہی بات میاں صاحب کے لکھ کر دینے کی کہ وہ چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے توپاکستان کے سیاسی حالات کب کیسے پلٹا کھاتے ہیں کسی کو معلوم نہیں؟ پھر اس کائنات کا ایک رب بھی ہے جو لوگوں کو اُن کی خواہشات، اعلیٰ ترین منصبوں اور بظاہر کامیاب منصوبوں میں بھی عاجز کردینے والا ہے۔ اورجہاں خرید وفروخت کا کوئی چلن نہیں۔