منی لانڈرنگ کے 330 ملزمان، 105 کوئی ٹیکس نہیں دیتے،بڑے تاجر اور سیاستداں سرفہرست
شیئر کریں
ٹیکس چوروں کی فہرست میں 57کاتعلق کراچی ‘25کالاہور‘18کااسلام آباد سے ہے‘22بڑی کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں
شواہدہونے کے باوجودایف بی آرٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں ‘بااثرافرادخودبھی کارروائی نہیں ہوتے دیتے
کالادھن سفید کرنے کاعمل (ٹی بی ایم ایل )منشیات فروشوں ‘جرائم پیشہ عناصر‘دہشت گردوں کیلئے سرمائے کاسب سے بڑاذریعہ ہے
شہلا حیات نقوی
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مالیاتی نگرانی کے یونٹ (ایف ایم یو) کی جانب سے منی لانڈرنگ کے الزام کی زد میں آنے والے با اثر افراد کے خلاف کارروائی کو ایک سال سے موخر کر رکھا ہے۔منی لانڈرنگ کے ان ملزمان کی تعداد 330 ہے، جن میں سے 80 فیصد کاروباری افراد جبکہ 20 فیصد بااثر سیاست دان ہیں ۔مرکزی بینک کے ایف ایم یونٹ نے مشکوک لین دین کے حوالے سے ماہانہ رپورٹ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور کسٹم انٹیلی جنس کو بھی فراہم کی۔ گزشتہ برس جون میں حکومت نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے دائرہ کار کو بڑھا کر ایف بی آر کے محکمہ اِن لینڈ ریوینیو کے انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن (آئی اینڈ آئی) ڈائریکٹوریٹ کو بھی اختیارات دیے تھے۔اس اقدام کے نتیجے میں ڈائریکٹوریٹ کو جولائی 2016 سے جون 2017 تک ٹیکس اور دیگر ڈیوٹی سے متعلقہ مشکوک لین دین کی 210 رپورٹس موصول ہوئیں جبکہ دیگر کیسز کو تفتیش کے لیے ایف آئی اے، نیب اور اے این ایف کو بھیج دیا گیا۔ایف بی آر میں موجود ذرائع کے مطابق ادارے کے مذکورہ محکمے کو ماہانہ 18 رپورٹس موصول ہوئیں ۔ایف بی آر کا آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ ان رپوٹس پر اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کر سکتا ہے۔اگر ایک شخص ٹیکس چوری کا اعتراف کرلیتا ہے تو اسے اپنے تمام واجب الادا ٹیکس، مقامی ٹیکس آفس میں جمع کرانے ہوں گے، لیکن اگر وہ شخص اعتراف کے باوجود ٹیکس ادا کرنا نہیں چاہتا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق اب تک اس طرح کی 2کارروائیاں ایف بی آر کی جانب سے کی گئیں اور دونوں ہی کا تعلق کراچی سے ہے جن میں ایف ابی آر نے 6 ارب 20 کروڑ 40 لاکھ روپے وصول کئے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کے 330 ملزمان میں سے 105 ملزمان کا قومی ٹیکس نمبر (این ٹی این) ہی موجود نہیں ، اس کے باوجود ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس چوری کے ان کیسز میں کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔اس فہرست کے مطابق 57 ٹیکس چوروں کا تعلق کراچی سے ہے جن میں 22 بڑی کارروباری شخصیات جبکہ 12 با اثر سیاست دان ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بااثر افراد اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی کارروائی روک دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ ان کیسز میں 25 افراد کا تعلق لاہور اور 18 کا اسلام آباد سے ہے جبکہ دیگر کیسز حیدر آباد، پشاور، فیصل آباد اور ملتان سے ہیں ۔ایف بی آر کے محکمہ آئی اینڈ آئی نے ان کیسز کے حوالے سے کارروائی میں ہونے والی سست روی کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ محکمے کو بنیادی ضروریات کے فقدان کے باعث کارروائیاں کرنے میں پریشانی کا سامنا ہے۔آئی اینڈ آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق محکمے کو افرادی قوت میں کمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر ملک بھر میں اِن لینڈ ریونیو کی رِٹ کو قائم کر دیا جائے تو اس سے بہترین نتائج مرتب ہوں گے۔
منی لانڈرنگ نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح جکڑ رکھا ہے اوراس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اگرپاکستان سے منی لانڈرنگ کی لعنت کامکمل خاتمہ کردیاجائے تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔منی لانڈرنگ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ حال ہی سامنے آنے والی امریکی محکمہ خارجہ کی جاری کردہ رپورٹ سے کیاجاسکتاہے ، اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قانونی تجارت کی آڑ میں پاکستان سے ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ’انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اسٹریٹجی رپورٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ بظاہر قانونی تجارت کی آڑ میں کالا دھن سفید کرنے کا عمل (ٹی بی ایم ایل) اس وقت منشیات فروشوں ، جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کیلیے سرمائے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اسی سے ایک ملک کی دولت کسی دوسرے ملک میں غیرقانونی طور پر منتقلی کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ملکوں کی معیشت کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ میں بجا طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ منی لانڈرنگ جرائم پیشہ افراد خاص طورپر دہشت گردوں کیلئے ریڑھ کی ہڈی کاکام دیتی ہے کیونکہ اسی کے ذریعے دہشت گردوں کو اپنے مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے رقم مل سکتی ہے جبکہ جائز طریقے سے منتقل کی جانے والی رقم دہشت گردوں کے پاس جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتاہے ، رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ عالمی برادری کو تجارتی منی لانڈرنگ کے ذریعے سالانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، اس رپورٹ میں تجارتی منی لانڈرنگ کی اصطلاح جان بوجھ کر یہ بتانے کیلئے استعمال کی گئی ہے کہ بظاہر سفید پوش تاجر حضرات منی لانڈرنگ کے اس مکروہ دھندے میں نہ صرف یہ کہ پورے پورے شریک ہیں بلکہ منی لانڈرنگ کا بڑا ذریعہ یہی نام نہاد تاجر ہیں جو انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کے ذریعہ انتہا ئی شفاف طریقے سے رقم مختلف ممالک کو منتقل کردیتے ہیں اور ان کے دامن پر کوئی دھبہ نظر آتاہے اور نہ ہی خنجر پر کوئی چھینٹ ۔یہ صحیح ہے کہ انڈر انوائسنگ اوراوور انوائسنگ کا یہ کاروبار پوری دنیا میں رائج ہے اور دنیا بھر کی بعض مشہور کمپنیاں اس مکروہ دھندے میں اپنے کلائنٹ کی پوری پوری مدد کرتی ہیں ، کیونکہ ان کی بھرپور مدد کے بغیر انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کا مکروہ دھندہ چل ہی نہیں سکتالیکن یہ مکروہ کاروبارایف بی آر کے اعلیٰ حکام اور بعض بااثر سیاستدانوں کی بھرپور حمایت اور معاونت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ایف بی آر کے حکام اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ بڑی رقم منتقل کرنے والوں کے علاوہ بیرون ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیو ں کی بڑی تعداد جن کی اکثریت ناخواندہ اور نیم خواندہ افراد پر مشتمل ہے اپنی رقوم اپنے اہل خانہ کو قانونی ذرائع سے بھجوانے کے بجائے منی لانڈرنگ میں ملوث منی چینجرز کے ذریعے بھجواتے ہیں ، اس طرح غیر قانونی طورپر رقوم منتقل کرنے والے لوگوں کاموقف یہ ہے کہ اس طریقہ کار سے رقوم بھیجنے سے انھیں قانونی ذریعے سے بھیجی جانے والی رقم کے مقابلے میں کچھ زیادہ مل جاتی ہے اور اس کی وصولی کیلئے متعلقہ فرد کے اہل خانہ کو جن کی اکثریت ناخواندہ اور نیم خواندہ ہے کو کہیں جانا نہیں پڑتا بلکہ متعلقہ کرنسی ایکس چینجر کے اہلکار اس کی رقم صرف24گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں اس کے گھر پر پہنچادیتے ہیں اور متعلقہ فرد کو اس کی تصدیق بھی کرادیتے ہیں ، ظاہر ہے کہ منی لانڈرنگ کایہ مروجہ طریقہ کار اگرچہ غیر قانونی ہے اور اسے روک کر سرکاری خزانے میں لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ لایا جاسکتاہے ، لیکن ہمارے ارباب اختیار کے پاس اس کوروکنے کاکوئی موثر طریقہ کار نہ توموجود ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی طریقہ کار وضح کرنے کی کوشش کی گئی۔