ٹرمپ اب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہدف بنائیں گے
شیئر کریں
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امریکا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کیخلاف جنگ کامیابی سے لڑی ہے ،اور اس حوالے سے پاکستان پر الزام تراشی کا یہ رویہ مناسب نہیںہے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس کے مندرجات پر غور کرنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس طلب کیا گیا جبکہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس تقریر کے فوری بعد ہی اپنے ردعمل میں امریکی صدر اور دیگر حکام پر یہ واضح کردیا تھا کہ امریکاپاکستان کو ڈالر دینے کاطعنہ نہ دے پاکستان نے یہ جنگ ڈالر کے لیے نہیں بلکہ اپنا خون دے کر لڑی ہے ،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے پہلے پالیسی بیان میں پاکستان کے لیے براہ راست دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے‘ پاکستان کو افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے پر فائدہ ورنہ نقصان ہوگا۔اس کے ساتھ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ ہم پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے اور انکے ٹھکانوں پر حملے کرینگے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان اکثر ان افراد کو پناہ دیتا ہے جو افراتفری پھیلاتے ہیں‘ ہمیں افغانستان اور جنوبی ایشیامیں چیلنجنگ صورتحال کا سامنا ہے‘ پاکستان اپنا رویہ جلد تبدیل کرلے‘ ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔ٹرمپ نے پاکستان کو امداد میں کمی کی بھی دھمکی دی اور کہا کہ اب پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف اپنی کمٹمنٹ دکھانا ہوگی‘ ہم پاکستان سے نمٹنے کے لیے اپنی سوچ تبدیل کررہے ہیں‘ پاکستان تہذیب کا مظاہرہ کرکے قیام امن میں دلچسپی لے۔ بھارت کی ستائش کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکاافغانستان میں استحکام کے لیے بھارت کے کردار کو سراہتا ہے‘ بھارت امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے۔یہی نہیں بلکہ صدر ٹرمپ نے بالواسطہ طور پر یہ کہہ کر پاکستان کو اس کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کاعندیہ ظاہر کیاہے کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ہیں‘ ہم ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہتے، اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگلے مرحلے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پاکستان‘ افغانستان اور جنوبی ایشیاکے حوالے سے امریکی صدر کایہ بیان کوئی غیر متوقع نہیں۔ نئی امریکی پالیسی کے بارے میں گزشتہ کچھ دنوںسے یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ٹرمپ اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے والے ہیں۔ ان قیاس آرائیوں میں کوئی اچنبھے کی بات اس لیے نہیں تھی کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران اور پھر امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد انکے ایماپر واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ میں اس اس کردار کے حوالے سے الزامات کا طومار باندھا جاتا رہاہے اور پاکستان کو سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی گرانٹ کو قرض میں تبدیل کرنے کے لیے امریکی کانگرس میں قراردادبھی پیش کی گئی تھی اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملے بڑھانے کا بھی عندیہ دیا جاچکا ہے،امریکی انتظامیہ پاکستان کو امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی کا درجہ ختم کرنے کی دھمکی دے چکی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی یہ ساری منصوبہ بندی درحقیقت بھارت کے ایماپر پاکستان کو زچ کرنے اور دہشت گردی کی جنگ میں بھارتی ڈکٹیشن کے مطابق اس سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے بڑھانے اور پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام محدود رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کے لیے جو دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا‘ وہ واشنگٹن انتظامیہ کے اعلانات کے عین مطابق ہے جس میں پاکستا ن میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا اعلان درحقیقت پاکستان کی سا لمیت پر حملے کا اعلان ہے جو اختیارات کی کشمکش میں ایک دوسرے سے دست وگریباں ہماری سیاسی قیادتوں کے لیے غوروفکر کا متقاضی اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ٹرمپ کے پالیسی بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے رسمی طور پر باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کیخلاف جنگ کامیابی سے لڑی ہے تاہم اس وقت ٹرمپ کے پالیسی بیان پر محض مایوسی کا اظہار کرنے اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے موثر کردار کا محض رسمی طور پر احساس دلانے کے بجائے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے قومی خارجہ پالیسی پر سنجیدگی کے ساتھ نظرثانی کی ضرورت ہے۔ امریکا سے قبل بھارت کی جانب سے بھی ہماری سلامتی کو براہ راست چیلنج کیا جاتا رہا ہے جو آج بھی ہمارے خلاف مہم جوئی پر آمادہ نظر آتا ہے اور اسی طرح کابل انتظامیہ کی جانب سے ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں تو دہلی اور کابل کے اس رویے میں بھی امریکا ہی کا عمل دخل رہا ہے۔ اگر ٹرمپ اپنے پالیسی بیان میں بھی پاکستان کی بے بہا قربانیوں کے باوصف افغانستان میں قیام امن کے لیے بھارت کے کردار کی ستائش اور پاکستان کو اپنا رویہ جلد تبدیل کرنے کی تلقین کررہے ہیں تو ان کا یہ لب و لہجہ درحقیقت ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی علامت ہے جس میں ہر دہشت گردی کا منبع مسلمانوں کے دین اسلام کو ٹھہرانے اور ہر ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر اپنے پہلے خطاب میں اسی تناظر میں دہشت گردی کو اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کیا تھا جبکہ وہ انتخابی مہم کے دوران بھی دہشت گردی کا ملبہ مسلمانوں اور پاکستان پر ہی ڈالتے رہے اور صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنے انتخابی منشور کو واشنگٹن انتظامیہ کی پالیسیوں میں تبدیل کردیا، چنانچہ ٹرمپ کی جانب سے اب پاکستان کے لیے کسی نرم رویے کی گنجائش ناممکنات میں شامل رہے گی‘ اس کا عندیہ انہوںنے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کا ٹوٹا ہوا تسلسل دوبارہ قائم کرکے دیا جبکہ یہ ڈرون حملے بڑھنا بھی شروع ہوگئے اور اب ٹرمپ کے پالیسی بیان میں تو پاکستان پر ملبہ ڈالنے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی گئی۔ یہ صورتحال ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہماری سلامتی کے ساتھ ساتھ ہماری خودمختاری اور خودداری کے لیے بھی چیلنج ہے جو ہمارے ننگے دشمن بھارت کی پشت پر کھڑی نظر آتی ہے ،نریندرا مودی کے دورہ نیویارک کے دوران ٹرمپ نے مودی کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون اور اسلحہ کی خریداری و تیاری کے مزید معاہدے کرکے درحقیقت بھارت کے لیے مکمل جانبدار ہونے کا اعلان کیا چنانچہ ہمیں اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے آج پہلے سے بھی زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جس طوطاچشم امریکا کی سلامتی کی خاطر پاکستان نے اپنے10ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکاروں اور حکام سمیت اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کی قربانی دی اور 80‘ ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا‘ وہی امریکا آج پاکستان کی سلامتی کے درپے نظر آرہا ہے ،ایک طرف امریکی صدر پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کاالزام لگارہے یں اور دوسری طرف وہ بھارت کے ایماپر کشمیری حریت تنظیموں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر مسئلہ کشمیرکی سنگینی کو کم کرکے عالمی توجہ کشمیر سے ہٹانے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے تسلط سے آزادی کے لیے جاری جدوجہد میں مصروف مجاہدین اور حریت پسندوں کو دہشت گردی ثابت کرنے کی کوشش کرکے کشمیر کاز کو بھی سبوتاژ کرنے کے درپے نظر آتا ہے۔
ڈونلڈٹرمپ کے اس شرمناک پالیسی بیان کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال تو ہماری سول اور عسکری قیادتوں سے ملک کے دفاع اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی فوری‘ موثر اور ٹھوس حکمت عملی تشکیل دینے کی متقاضی ہے۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ کا یہ اعلان بالکل بروقت اور بجاہے کہ پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی امداد نہ لینے کے حوالے سے اس زبانی بیان کو عملی شکل دی جائے اور اگر ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کوکسی قسم کی امداد دینے پر آمادگی کااظہار بھی کرے تو ایسی امداد لینے سے معذرت کرلی جائے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین، روس اور دیگر عالمی طاقتوں سے روابط کو مضبوط بنائے تاکہ امریکی صدر کو یہ اندازاہوسکے کہ پاکستان کے اخلاص پر شک کااظہار کرکے خود انھوں نے امریکا کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے بلاتاخیر امریکا کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ اس سلسلہ میں حکومت کو تمام قومی سیاسی و دینی قیادتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے بھی فوری طور پر عملی پیش رفت کرنی چاہیے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فی الفور بلا کر قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار کرنی چاہیے تاکہ ہم امریکا سمیت پوری دنیا پر یہ واضح کرسکیں کہ قومی وقار کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں اپنے تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔
٭٭…٭٭