میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم صاحب! عوام کو نصیحت کے بجائے خود اپنی کابینہ سے آغاز کریں

وزیراعظم صاحب! عوام کو نصیحت کے بجائے خود اپنی کابینہ سے آغاز کریں

جرات ڈیسک
منگل, ۲۵ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

شرقپور میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح اور لاہور میں تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی جادو ٹونے سے نہیں محنت سے ختم ہوگی، سیاسی قوتیں اختلاف دفن کرکے ایک ہوجائیں، اتحاد قائم کریں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیفالٹ کا سوچ کر نیند نہیں آتی تھی، دن رات منتیں کیں پھر آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا، آئیں میثاق معیشت پر بات کریں، اس طرح کام نہیں چلے گا، ہم فیصلہ کرلیں اب عزت کی زندگی گزارنی ہے یا بھکاری کی، بلاشبہ غریب مہنگائی سے پٹ چکا ہے میرا بس چلے تو راتوں رات مہنگائی ختم کر دوں، عام انتخابات میں عوام جوبھی فیصلہ کریں گے ہم قبول کریں گے، حکومت ملی تو جان لڑا دوں گا، وزیر اعظم نے دعویٰ کیاکہ یہ منصوبے عوامی فلاحی منصوبے ہیں،ان منصوبوں سے نہ صرف ان علاقوں کی شکل بدل جائے گی بلکہ عوام کو درپیش ٹریفک کے حوالے سے مسائل میں بھی کمی آئے گی،لوگوں کو روز گار کے مواقع ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں پر 35ارب روپے کی لاگت آئے گی،اس سے پورے علاقے میں خوشحالی کا انقلاب آئے گا،اورعوام کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی اس بات سے عدم اتفاق نہیں کیا جاسکتاکہ مہنگائی جادو ٹونے سے نہیں محنت سے ختم ہوگی لیکن صرف محنت کا درس دینے سے ایسا نہیں ہوسکتابلکہ اس کیلئے خود حکومت کو اور خاص طور پر خود وزیراعظم کو اس کا عملی آغاز کرنا ہوگا،انھیں سب سے پہلے حکومتی اللوں تللوں کو کم نہیں بلکہ ختم کرنا ہوگا،اس غریب ملک پر مسلط کی ہوئی وزیروں،مشیروں اور معاونین کی فوج کو کم کرنا ہوگا اور صرف چند وزرا کے ذریعہ امور مملکت چلانے کا آغاز کرنا ہوگا،وزرا ء کے پروٹوکول کو بالکل ختم کرکے ان کے پروٹوکول کیلئے مختص گاڑیوں اور عملے کو دوسرے پیداواری عمل میں لگانا ہوگا،اعلیٰ سرکاری افسران کوسیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے ان پر بیجا نوازشات کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا، کیا وہ اپنی موجودہ حکومت کے خاتمے سے پہلے ایسا کرسکیں گے اور جس طرح انھوں نے اپنے اورا پنی پارٹی کے رہنماؤں کے مقدمات ختم کرانے اور اثاثے بحال کرانے کیلئے قوانین منظور رکرائے تھے اس مقصد کیلئے ایسے قوانین منظورکرانے پر تیار ہوں گے جس کے تحت سرکاری ملازمین کو اپنی حد میں رہنے پر مجبور کیاجاسکے۔
پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ دونوں معاشی اعتبار سے تقریباً برابر تھے بلکہ آزادی کے ابتدائی برسوں میں پاکستانی معیشت تمام تر بے بضاعتی اور مشکلات کے باوجود بھارت کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ بین الاقوامی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہتا تھا کہ مستقبل میں کون سا شہر زیادہ جدید ہوگا؟ کراچی یا نیویارک، لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ بھارت مدار پر پہنچ رہا ہے، وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ چوتھا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔ صرف افغانستان، عراق اور شام کے پاسپورٹ پاکستان کی نسبت کمزور ہیں۔چند سال قبل پاکستان ٹیکسٹائل، چمڑے اور آلات جراحی کی ایکسپورٹ میں بھارت سے بہت آگے تھا لیکن آج ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بھارت کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستان کی سالانہ برآمدات تقریباً 90 ارب ڈالر ہونی چاہئیں۔بھارت نے آخری مرتبہ 1991 میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔ وہ بھی ایک اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ تھا، جو 1993 میں ختم ہوا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اس نے آئی ایم ایف سے مدد نہیں مانگی جبکہ پاکستان کو مارچ 2024 میں اس پروگرام کے خاتمے کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہے۔بھارت کی ترقی کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت کی ترقی کا سفر اس وقت شروع ہوا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلا اس کے بعد پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے اس مقام تک پہنچنے میں اسے تقریباً 30 سال لگے ہیں۔ اگر پاکستان اگلے 5 سال بعد آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے اور بھارت کی رفتار سے معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کرتا ہے تو بھی اب پاکستان کو بھارت کے برابر آنے کے لیے کم از کم 40 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہم اس قدر پیچھے رہ گئے ہیں کہ شاید دوڑ میں سے ہی نکل گئے ہیں،بھارت کی اس ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی ہر حکومت نے کفایت شعاری اختیار کی جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ بھارت کے سرکاری افسران اور وزرا معمولی گاڑیاں چلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر کو 2کروڑ کی گاڑی دی جاتی ہے۔ ہماری آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ ہے۔ جب بھارت معاشی بدحالی کا شکار ہوا تو اس نے اپنے اخراجات آمدنی کے مطابق کم کر دیے تھے جبکہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی ہی تقریباً 17 ارب ڈالرز ہے، جو پاکستان کے ذخائر سے دو گنا زیادہ ہے۔اسی کفایت شعاری پر عمل کرکے بھارت نے آئی ایم ایف کو خیرباد کہا اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکاہے،اور آج صورت حال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ان کامقابلہ کرنا بالکل ایسے ہی ہے، جیسے امریکہ اور برطانیہ کی معیشت کا پاکستان سے مقابلہ کیاجائے۔ ہم اپنے اخراجات کمکرنا نہیں چاہتے ایک غریب اور کم وسیلہ ہونے کے باوجود ہمارے اللے تللوں میں کوئی فرق نہیں آیا،ہمارے وزیراعظم اور وزیر خزانہ عوام کو تو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں لیکن کابینہ کے حجم اور اس کے اخراجات میں کمی کرنے کو تیار نہیں ہمارے وزیراعظم عوام کی بے بسی پر مگر مچھ کے آنسو تو بہاتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی بھتیجی جس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو پروٹوکول کی درجن بھر سے زیادہ گاڑیاں اس کے آگے پیچھے ہوتی ہیں کیا انھوں نے بھارت کے وزیر اعظم کے پروٹوکول میں بھی کبھی یہ کروفر دیکھا ہے،حقیقت یہ ہے کہ اپنی حکومت کی بیساکھیوں کو راضی کرنے کیلئے وزیروں،مشیروں اور معاونین کو نوازنے پر مجبور ہیں،جس کی وجہ سے سیاسی استحکام ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے جبکہ بھارت کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔،ہم معاشی پالیسیاں مستقل نہیں رہنے دیتے،آبادی کے تناسب سے اگر حساب لگایا جائے تو پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں آنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب سے بڑھا کر تقریباً 95 ارب ڈالرز تک لانا ہوں گے جو فی الحال ایک خواب ہے۔ گو کہ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال بھارت سے بہتر ہے۔ لیکن بھارت کی ترقی کی بڑی وجہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل، بین الاقومی سطح پر بہترین لابنگ اور سرکاری سطح پر کفایت شعاری اور اسراف سے احتراز ہے جس کا ہمارے یہاں فقدان ہے اور ہمارے وزیر خارجہ عوام کاگلاگھونٹ کر آئی ایم ایف سے قرض کے حصول ہی کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔اس وقت زمینی صورت حال یہ ہے کہ اگر ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وسط ایشیائی ممالک، ایران اور چین سے مقامی کرنسی میں تجارت کو ممکن بنانے کی کوشش کے ساتھ ہی پاکستان میں صنعتی شعبے کو ضروری سہولتیں مہیا کریں اور پاکستانی صنعتوں میں تیار کئے جانے والے مال کا معیار بہتر بنائیں صرف یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف وسط ایشیائی ممالک ایران اور چین کی مارکیٹوں میں قدم جمائے جاسکتے ہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں بھی جو اس وقت کلی طورپر بھارت کے پاس ہیں دوبارہ قدم جمائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔ 2019 سے 2022 تک پاکستان نے آئی ٹی سیکٹر میں 177 فیصد گروتھ دکھائی ہے۔ پچھلے ایک سال کے معاشی بحران کے باوجود آئی ٹی کی برآمدات ڈھائی ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں اگرچہ یہ بھارت کی نسبت کم ہیں کیونکہ بھارت 200 ارب ڈالرز کی آئی ٹی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو بھارت کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس تقریباً 33 ارب ڈالرز ہونی چاہئیں، جو مشکل نہیں ہیں۔پاکستان کی تقریباً 12 کروڑ کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں آئی ٹی کے شعبے میں معیاری اور عالمی سطح کی تربیت دی جائے تو پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فری لانسرز اور سافٹ ویئر ایکسپورٹرز کو اپنے کمائے ہوئے ڈالرز آسانی سے پاکستان لانے اور لے جانے کی اجازت دی جانی چاہئے۔کیا وزیراعظم عوام کو محنت کا درس دینے سے پہلے اپنی حکومت کی یہ خامیاں درست کرنے پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں