میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بدلتے موسم کے بدلتے تیور

بدلتے موسم کے بدلتے تیور

ویب ڈیسک
پیر, ۲۵ جولائی ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

ایک طویل مدت سے سائنس دان باربار عالمی رہنماؤں کو تنبیہ کررہے تھے کہ ’’کلائمٹ چینج یعنی موسموںکی تبدیلی پوری دُنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اکثر ممالک پر بہت بُرے اثرات مرتب ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ غیر متوقع موسمیاتی تبدیلی سے کروڑوں انسانوں کی صحت اور زندگی کو جان لیوا خطرات لاحق ہوجائیں۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندروںکی سطح بڑھ جائے گی، طوفان اور سیلاب آئیں گے، وبائی امراض پھوٹ پڑیں گے،سرد علاقوں میں گرمی اور گرم علاقے سردی کی لپیٹ میں آجائیں گے اور ہماری زمین کے قدرتی وسائل میں تیزی کے ساتھ کمی آنا شروع ہوجائے گی‘‘۔سائنس دانوں کی یہ باتیں ہمارے دانش و بنیش عالمی رہنما سنتے تو ضرور تھے لیکن اُنہیں زیادہ سنجیدگی سے کبھی نہیں لیتے تھے۔ماہرین کی نصیحت پر کان نہ دھرنے کا اَب یہ نتیجہ برآمد ہورہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو بُرے طریقے سے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے اور اِس وقت شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک باقی بچا ہو ،جو موسمیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر نہ ہورہا ہو۔
ترقی پذیر اور غریب ممالک کی تو خیر سے بات ہی چھوڑدیں،یہاں تو ترقی یافتہ مغربی اور یورپی ممالک بھی آج کل پوری طرح موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر آئے ہوئے ہیں اور غیر متوقع طور پر آنے والی گرمی کی شدید ترین لہر نے مغربی یورپ کے بیشتر حصوں کو اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا ہے ۔جس کی وجہ سے اُن ممالک میں شدید گرمی سے معمولات زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں ۔برطانوی محکمہ موسمیات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، برطانیہ میں اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 40.2 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے اور ماہرین کی جانب سے برطانوی عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ یہ صرف ابتداء ہے ، آئندہ درجہ حرارت مزید بھی بڑھے گا۔نیز فرانس کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں شدید گرمی کی پیشگی وارننگ جاری کردی ہے۔جبکہ نیدرلینڈز سے بھی ماہِ جولائی میں ریکارڈ درجہ حرارت رہنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔علاوہ ازیں فرانس، پرتگال، سپین اور یونان کے جنگلات میں شدید گرمی کی تپش سے لگنے والی مہلک آگ نے ہزاروں افراد کو اپنے گھر وں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔
دوسری جانب رواں ہفتہ ہی سپین کے شمال مغربی علاقے زمورا میں ریکارڈ گرمی سے جنگل میں لگنے والی آگ سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور نانٹس سمیت فرانس کے کئی شہروں میں اب تک کا گرم ترین دن رہنے کے بعد فرانس کے اردگرد موجود جنگلات بھی آگ سے سُلگ رہے ہیں ۔یاد رہے کہ جنگلات میں لگنے ولاے مذکورہ آگ سے فرانس کا ایک مقبول ترین سیاحتی مقام گیرونڈے خاص طور پر بری طرح متاثر ہوا ہے۔جہاں صرف ایک ہفتے میں 19,300 ہیکٹر (47,700 ایکڑ) اراضی جل مکمل طور پر خاکستر ہوچکی ہے۔ جبکہ بیلجیم میں بھی گرمی کا پارہ 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے اور بیلجیئم کے ریزورٹ ڈی ہان کے ٹیلوں میں گرمی سے آگ بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں کئی گاڑیاں جل کر راکھ ہوگئیں۔اس کے علاوہ جرمنی کی ڈی ڈبلیو ڈی موسمی سروس نے بھی ملک بھر میں ریکارڈ درجہ حرارت ہونے کی تصدیق کی ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ازحد ضرور ی ہے کہ عین ممکن ہے کہ ہمارے قارئین کو مغرب اور یورپ کے اکثر ممالک میں 40 سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت کچھ زیادہ محسوس نہ ہو۔ دراصل مغرب اور یورپ ہمیشہ سے دنیا کے سرد علاقوں کی ذیل میں شمار کیئے جاتے رہے ہیں۔ لہٰذا وہاں رہائشی مکانات وغیرہ سردموسم کی قہر سامانیوں کو پیش ِ نظر رکھ کر تعمیر کیے جاتے ہیں نہ کہ گرم موسم سے بچاؤ کے لیئے ۔ اس لیئے مغرب اور یورپ میں اچانک سے 40 سینٹی گریڈ گرمی پڑنے سے ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اور وہاں کے لوگو ں کے لیئے کسی بھی عمارت میں دن یا رات گزارنا قطعی طور پر ناممکن ہوگیا ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مذکورہ ممالک میں پڑنے والی شدید گرمی نے وہاں کی عوام کو سڑکوں اور پارکوں پر دن رات گزارنے پر مجبور کردیاہے۔ اگرچہ مغربی ممالک ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے جاچکے ہیں ،لیکن موسمیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں پڑنے والی شدید ترین گرمی سے مقابلہ کرنے میں وہ بھی ابھی تک سخت عاجز نظر آتے ہیں ۔
امریکا میں کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق کی رپورٹ کے مطابق اس بات کے واضح شواہد ملے ہیں کہ ماحول دشمن انسانی سرگرمیوں سے ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ جبکہ’’فیڈرل کلائیمیٹ چینج‘‘نامی سائنسی منصوبے کے ایک تحقیق کے مطابق پچاس برسوںسے وقوع پذیرہونے والی موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کا بنیادی محرک حضرت انسان کاماحول دشمن طرز ِ معاشرت ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہم انسانوں نے اپنی بے اعتدالیوں سے کرہ ارض کے قدرتی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری زمین موسمیاتی گردشی نظام بے ترتیب ہوگیا ہے ۔یہ موسم کی بے ترتیبی ہی ہے کہ جہاں سردموسم ہونا چاہیئے وہاں سخت گرمی پڑ رہی ہے اور جس خطے میں بارشیں ہونے چاہیے ،وہاں غیر متوقع طور پر خشک سالی ہے ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیئے پوری طرح سے تیار نہیں ہے ۔دراصل سائنس دانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں کرہ ارض کا موسمیاتی گردش متاثر ہونے کا اندازہ تو تھا لیکن یہ گردشی عدم توازن بیک وقت دنیا کے اتنے زیادہ ممالک کو ، اتنے بُرے طریقے سے متاثر کرے گا ۔ یقینا یہ صورت حال عالمی ماہرین موسمیات کے لیئے بھی بالکل غیر متوقع ہی ہے۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر غیر معمولی اور فوری اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں ،مگر لگ یہ ہی رہا ہے کہ عالمی رہنماؤں نے کرہ ارض کے تحفظ کے لیئے ماحول دوست اقدامات اُٹھانے میں کافی تاخیر کردی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں