امریکہ کو صاف جواب دینے کی ضرورت
شیئر کریں
واشنگٹن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکی انتظامیہ نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں پر غیر تسلی بخش ہونے کا الزام لگاتے ہوئے5 کروڑ کی امداد روک لی ہے۔غیر ملکی ذرائع نے پینٹاگون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ کے حوالے سے بتایا کہ یہ فیصلہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کی جانب سے کانگریس کو دی جانے والی وضاحت کے بعد کیا گیا ہے۔ امریکا کی جانب سے جاری کردہ بیان میںالزام عائد کیا گیاہے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف نیشنل ڈیفنس اتھورائزیشن ایکٹ کے مطابق کارروائی نہیں کی،اس لیے اب پاکستان کو فوجی امداد کی مد میں مختص رقم ادا نہیں کی جائے گی ۔ امریکی حکام کے مطابق وزیر دفاع جیمز میٹس نے کانگرس کو بتایا کہ پاکستان کے لیے 2016-17 کے دفاعی فنڈز جاری نہیں کئے گئے، کیونکہ بطور امریکی وزیر دفاع وہ اس امر کی تصدیق نہیں کر سکے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے حمایتی حقانی نیٹ ورک کے خلاف مناسب اقدامات اٹھائے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس اقدام سے وائٹ ہائوس کی ایشیاسے متعلق پالیسی کے جائزے اور نتائج پر برا اثر نہیں پڑے گا۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کی امداد روکے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیںہے، پینٹاگون نے گزشتہ سال بھی پاکستان کی 3 کروڑ کی دفاعی امداد روک لی تھی ۔ غیرملکی میڈیا نے دہشت گردی پر امریکی محکمہ خارجہ کی جاری کردہ رپورٹ برائے 2016کا حوالہ دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اس رپورٹ میں پاکستان کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اہم اتحادی قرار دینے کے باوجود ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے ذریعے ایک مجرمانہ فعل قرار دے رکھا ہے، تاہم پاکستان میں تحقیقات میں عدم وسائل اور کمزور عدالتی نظام کے باعث اب تک اس جرم کا ارتکاب کرنیوالے لوگوں کی بڑی تعدادکے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔
امریکا کااتحادی بننے کے بعدسے پاکستان کے ساتھ امریکا کی طوطاچشمی کے یہ واقعات ایک تلخ حقیقت ہیں۔ دو روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کانگریس میں پیش کی گئی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی گئی کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے اور لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں 2016کے بعد بھی پاکستان سے چلائی جارہی ہیں جنہیں منظم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مالی مدد بھی فراہم کی جارہی ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی پینٹاگون کی جانب سے پاکستان کی رواں سال کے لیے 5 کروڑ ڈالر کی دفاعی گرانٹ روکی گئی ہے، جو دہشت گردی کی جنگ میں اس کے فرنٹ لائن اتحادی کے قربانیوں کی نفی ہی نہیں‘ اس کی توہین کے بھی مترادف ہے۔
گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکی کانگرس کو سالانہ بجٹ میں پاکستان کے لیے فوجی سازوسامان کی مد میں دی گئی گرانٹ قرض میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس کے لیے ایک مسودہ قانون بھی تیار کرکے کانگریس میں پیش کیا گیا، جبکہ وائٹ ہائوس کے ڈائریکٹر نے پاکستان کی دفاعی امداد کم کرنے کا عندیہ بھی دیا اور کہا کہ امریکا پاکستان کو اب پیسے نہیں‘ صرف گارنٹی دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان میں طالبان کی مبینہ پناہ گاہوں کا جوازپیدا کر کے اس کے بارے میں پالیسی مزید سخت کرنے کا بھی عندیہ دیا اور بتایا کہ پاکستان کا نان نیٹو بڑے اتحادی کا درجہ کم کرکے اس کی سرزمین پر ڈرون حملوں میں اضافہ کیا جائے گا اور اس کی امداد روک لی جائے گی یا امداد کے حجم میں تبدیلی عمل میں لائی جائے گی۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم مودی کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کو اپنے ساتھ بٹھا کر پاکستان سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی سرزمین دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ ٹرمپ نے اس موقع پر کشمیری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد بھی قرار دیا، جبکہ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کسی ملک کے جبری قبضے کے خلاف جدوجہدکرنے والے کسی فرد کو دہشت گرد قرار نہیں دیاجاسکتا،لیکن امریکا کے صدر نے اقوام متحدہ کے منشور کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے محض بھارتی وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا جس کا مودی نے خیرمقدم کیا۔ امریکا کے صدر کی اس پالیسی سے یہ بات انتہائی واضح ہوتی ہے کہ امریکا پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال تو کرنا چاہتاہے، لیکن درحقیقت وہ پاکستان دشمنوں کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان دشمن بھارت کی جانب سے پاکستان سے کئے جانیوالے تقاضوں پر اس کی ہاں میں ہاں ملارہا ہے، جبکہ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے حوالے سے عائد کئے جانیوالے الزامات پر امریکا اسے بھی تھپکی دیتا نظر آتا ہے، ایسی صورت میں پاکستان کے لیے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
دہشت گردی کے خاتمہ کی امریکی جنگ میں کود کر پاکستان نے نیٹو ممالک کے مجموعی نقصانات سے بھی زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے اس کے نتیجے میں پاکستان کے10 ہزار جوانوں اور افسروں سمیت مجموعی طور پر70 ہزار کے قریب شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے اور پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کے نقصانات کا جھٹکا لگا، جبکہ دہشت گردی سے پیدا ہونیوالی غیریقینی صورتحال سے پاکستان میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی رک گیا جس سے پاکستان کی معیشت کا پہیہ جامد ہو کر رہ گیا، لیکن امریکا آج سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کے لیے منظور کی گئی دفاعی گرانٹ بھی جاری کرنے کا روادار نہیں ہورہا اور پاکستان کی سالمیت کے درپے بھارت کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے لاتعداد معاہدے کرکے اور ہر قسم کے اسلحہ کی تیاری میں اس کی معاونت کرکے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے اس کے عزائم کو مزید تقویت پہنچا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ ننگی دشمنی پر اترے افغانستان کی بھی امریکا سرپرستی کررہا ہے، جو ہر دہشت گردی کا ہم پر ملبہ ڈال کر امریکی لب و لہجے میں ہم سے ڈومور کے تقاضے کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایک مربوط ڈوژیئر کی شکل میں اس امر کے ٹھوس ثبوت اور شواہد بھی امریکی دفتر خارجہ کو پیش کئے جاچکے ہیں کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغان سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، جو یہاں خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری گھنائونی وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ ٹھوس ثبوت کابل انتظامیہ کو بھی پیش کئے گئے اور اشرف غنی کی افغان حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث طالبان لیڈر ملا فضل اللہ کے خلاف آپریشن کرنے یا اسے پاکستان کے حوالے کرنے کا تقاضا کیا جاتا رہا جسے کابل انتظامیہ نے درخوراعتنانہیں سمجھا اور اس کے برعکس ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اب اگر ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت اور افغانستان کے بے سروپا الزامات کی بنیاد پر پاکستان کی دفاعی امداد روکنے سمیت اس کے بارے میں سخت پالیسی اختیارپر عمل کاآغاز کردیاہے، تو پاکستان کوبھی امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کی نئی حکمت عملی طے کرنی چاہئے اور امریکا حکومت پر یہ واضح کردینا چاہئے کہ امریکی حکومت کی اس طرح کی یکطرفہ پاکستان دشمن پالیسی کے پیش نظر پاکستان اب امریکا کے ساتھ آنکھ بند کرکے تعاون نہیں کرسکتا،اور امریکا کے ساتھ تعلقات او ر تعاون کے حوالے سے پہلے پاکستان کے اپنے مفادات کو مد نظر رکھاجائے گا، تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم معاشی طورپرخود کو اتنا مستحکم کرلیں کہ ہم امریکا کو اپنی امداد اپنے پاس رکھنے کاکہہ سکیں۔اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسری بڑی طاقتوں خاص طورپر روس ، چین، جرمنی اور فرانس سے تعلقات کو اس حد تک استوار کرنے پر توجہ دیناہوگی اور ان ممالک کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے جس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں اور اس کی دفاعی تیاریوں کا بنیادی مقصد محض اپنی آزادی ،سلامتی اور خود مختاری کادفاع کرناہے۔
ہمیں امریکا پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کارروائی کے لیے ہمیں امریکی ڈکٹیشن کی قطعاً ضرورت نہیں، کیونکہ دہشت گردی کے ناسور سے مکمل اور مستقل خاتمہ ہماری اپنی ضرورت ہے ،اور پاکستان اپنے مفادات کے تحت دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے پر خود بلاامتیاز آپریشن کررہا ہے جس کے خاطرخواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس وقت آپریشن ردالفساد اور کومبنگ آپریشن ملک بھر میں جاری ہے، جبکہ خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر خیبرفور کے نام سے ہماری سیکورٹی فورسز کا ایک جامع آپریشن بلاامتیاز جاری ہے۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جسے اپنی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے تحفظ کے لیے اقدامات کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا امریکا کو اپنے تحفظ کی خاطرحاصل ہے، پاکستان کے بارے میں امریکا کی موجودہ نظرثانی شدہ پالیسی ہمارے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی اور امریکا کی جانب سے ہم سے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کی گنجائش بھی اب ختم ہوچکی ہے۔ ہم اب علاقائی امن و سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی قومی خارجہ پالیسی پر ہی عمل کریں گے اوراس حوالے سے نہ تو ہمیں کسی کے ڈکٹیشن کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہم ایسی کوئی ڈکٹیشن قبول کریں گے۔