میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈاکٹر عافیہ کیس عالمی معاملہ ہے، مداخلت نہیں کر سکتے ،سندھ ہائیکورٹ

ڈاکٹر عافیہ کیس عالمی معاملہ ہے، مداخلت نہیں کر سکتے ،سندھ ہائیکورٹ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۵ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

سندھ ہائیکورٹ میں امریکی جیل میں قید پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران جسٹس عمر سیال نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس عالمی معاملہ ہے ، سندھ ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرسکتی۔سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے وفاقی حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ جسٹس عمر سیال نے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر امریکہ میں کیسے عمل درآمد ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ امریکا میں عافیہ صدیقی مر گئیں تو انکی لاش بھی نہیں دیں گے۔جسٹس عمر سیال نے استفسار کیا کہ کیا سندھ ہائی کورٹ امریکی صدر ٹرمپ کو حکم دے کہ جیلوں سے ملزمان کو رہا کریں؟ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کیس عالمی معاملہ ہے سندھ ہائی کورٹ میں مداخلت نہیں کرسکتی۔عدالت جذبات پر نہیں قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔جسٹس عمر سیال نے مزید کہا کہ کیس کو موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سنایا جائے گا عدالت عالیہ نے درخواست کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ امریکہ میں یہ پٹیشن عافیہ کی سزا کو ختم کرنے کیلئے دائر کی گئی ہے۔ جس میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر اور رابرٹ بوالے کے حلف نامہ کی کاپیاں بھی منسلک ہیں۔انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک کی ڈائریکٹر اور امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر نے حلف نامہ میں بیان کیا ہے کہ ’’مجھے اس پر پچھتاوا ہو گیا کہ اگر میں یہ نہ بیان کروں کہ ڈاکٹر صدیقی جس قدر تشدد برداشت کرنے کے بعد زندہ ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اگر میں ذاتی طور پر اس کی حالت زار کی تفصیلات نہیں سنتی اور خود حقائق کی چھان بین اور تصدیق نہ کرتی ، تو اس کی کہانی ناقابل یقین ہوتی۔اس کی موجودہ حالت کا مشاہدہ کرنے کے بعد میں نہ صرف اس کی ایک دہائی کی طویل مصائب کی 100 فیصد قائل ہوں ، بلکہ اس کی موجودہ حالت زار کا تصور کر کے روزانہ اذیت کا شکارہوجاتی ہوں۔ انہوں نے اپنے حلف نامہ میں بیان کیا ہے کہ تحقیق کے بعد مجھے عافیہ کی معصومیت پر کوئی شک نہیں ہے‘‘۔امریکہ میں پارڈن اتھارٹی کیلئے پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عافیہ پر الزامات کی صداقت میں شکوک اور ٹرائل غیرمنصفانہ تھا۔تمام فرانزک اور فریکل شواہد بھی عافیہ کی بے گناہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ غزنی میں ہونے والے واقعہ سے 5 سال قبل عافیہ کو اس کے تین بچوںسمیت امریکی حکومت کی ایماء پر پاکستانی حکام نے کراچی کی کسی سڑک سے اغواء کیا گیا تھا۔اور انہیں کسی نامعلوم مقام پر جبری لاپتہ افراد کے طور پر رکھا گیا تھا۔ جہاں عافیہ کو تشددکا نشانہ بنایا گیا۔اس کے ایک بچے سلیمان جو اغواکے وقت چھ ماہ کا تھا موت واقع ہو گئی اور باقی دونوں بچوں کو 2008 میں عافیہ کو سزا سنانے کے بعد واپس کردیا گیا تھا۔حکومت پاکستان اور امریکہ نے امریکی عدالت میں عافیہ کے دفاع کیلئے جن وکلاکی خدمات حاصل کی تھیں ان کی دلچسپی متنازیہ تھی۔ انہیں حکومتوں کی جانب سے معاوضہ ادا کیا جارہا تھا جو عافیہ کے غیرقانونی اغواء اور تشدد پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر عافیہ نے امریکی فوجیوں کو زخمی کرنے کی کوشش کی (یہ الزام کبھی بھی ثابت نہیں ہو سکا) تو 86 سال کی سزا ضمیر کو حیران کردیتی ہے اور یہ حد درجہ زیادتی ہے کہ وہاں عافیہ کے علاوہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔86 سال کی سزا عافیہ اور ان کے اہلخانہ کو خاموش کرنے کیلئے سنائی گئی تھی تاکہ عافیہ کے خلاف امریکی اور پاکستانی حکومتوں کے جرائم پر پردہ پوشی کی جاسکے۔ عافیہ تین بچوں کی ماں ہے اور ان کی والدہ شدید بیمار ہیں۔ عافیہ کی ذہنی صحت بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ اسے انسانی بنیادوں پر وطن واپس بھیجنا چاہئے کیونکہ اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں