میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے ادویہ ساز اداروں کو مافیا کی شکل دینے میں ڈریپ کا مرکزی کردار

پاکستان کے ادویہ ساز اداروں کو مافیا کی شکل دینے میں ڈریپ کا مرکزی کردار

ویب ڈیسک
منگل, ۲۵ جون ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل) ادویہ سازی دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے۔دنیا کے تقریبا ہر ملک چاہے وہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پزیر، وہاں عوام تک معیاری اور سستی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی ریگولیٹری اتھارٹی موجود ہے۔یہ ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ان تک طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے اور ڈرگ کے قوانین سے روگردانی پر سخت سے سخت کارروائی بھی کرتے ہیں۔ ادویہ سازی کے عمل کو شفاف رکھنے کے لیے قائم یہ ادارے اپنے فرائض مکمل ذمہ داری اور ایمان داری کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں، اسی طرح ادویہ ساز ادارے بھی ادویات کی تیاری کے ہر مرحلے کو غلطیوں سے مبرا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور فارما سیوٹیکل کمپنیاں ایک دوسرے کے مفادات سے متصادم (کونفلکٹ آف انٹرسٹ) ہونے کے باجود ایک بنیادی مقصد پر کام کرتی ہیں جو کہ’ عوام تک معیاری اور ارزاں ادویات کی ہر ممکن فراہمی‘ ہے۔


عوام کے حقوق کی ضامن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے لیے خام مال کی آڑ میں منی لانڈرنگ، جعلی وغیر معیاری ادویات،ادویات کی مصنوعی قلت او ر بلیک مارکیٹنگ اور ناجائز منافع خوری کی راہ ہموار کرتی ہے


دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ادویہ ساز اداروں کی خام مال کی خریداری سے فنش پراڈکٹ تک کی تیاری کے ہر مرحلے پر نگرانی کے لیے ایک ’نام نہاد‘ ریگولیٹری اتھارٹی بھی موجود ہے جس نے 2012میں اپنے قیام کے بعد سے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن پاکستان کے ادویہ ساز اداروں کو ایک مافیا کی شکل دینے میں مرکزی کردار ضرور ادا کیا ہے۔ پاکستان میں یہ معاملہ صرف ادویہ ساز اداروں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کی گٹھ جوڑ تک محدود نہیں ہے۔ یہاں عوام کی سانسوں کی ڈور کو برقرار رکھنے کے لیے قائم ادارے ہی ان کی جان لینے کے درپے ہیں۔ پاکستان میں عوام تک ارزاں اور معیاری ادویات کی فراہمی، طبی سہولیات، سرکاری اسپتال میں قابل ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ہمہ وقت موجودگی، سرکاری سطح پر مفت ادویہ کی فراہمی اور طبی ٹیسٹ کی سہولیات محض ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان سب سے اگر کوئی مریض زندہ بچ جائے تو پھر فارما سیوٹیکل مافیا اسے موت کے شکنجے میں دبوچنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ عوام کے حقوق کی ضامن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے لیے خام مال کی آڑ میں منی لانڈرنگ، جعلی وغیر معیاری ادویات،


ائی کیو فارما نے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں خاص طور پر بچوں میں استعمال ہونے والے جینرک Ceftriaxone سے بننے والے تین مختلف برانڈ نام کے ساتھ تینوں کو الگ الگ قیمت پر فروخت کر رہی ہے


ادویات کی مصنوعی قلت او ر بلیک مارکیٹنگ اور ناجائز منافع خوری کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ادویہ سازی کے عمل کو شفاف رکھنے، ادویہ ساز اداروں کی گڈز مینوفیکچرنگ پریکٹس کے معیارات، ادویات کی رجسٹریشن، خام مال کی قیمتوں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹرز اور اسپتالوں پروموشن کے نام پر دی جانے والی بھاری رقوم، گاڑیوں اور تفریحی دوروں پر اٹھنے والے اخراجات پر کمپنیوں سے باز پُرس کرنا بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اُن فرائض منصبی میں شامل ہیں، جسے انہوں نے کبھی اپنا فرض سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔پاکستان میں ادویہ ساز اداروں کو لگام ڈالنے کے لیے قائم ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے دو نمبر دھندوں کو روکنے کے بجائے ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی خود ادویہ ساز اداروں کی شریک جُرم بن چکی ہے۔
پاکستان کی تقریبا ہر ادویہ ساز کمپنی کے کارنامے انڈس،ہلٹن، زافا، میڈی شیور، جی ایس کے پاکستان، آئی سی آئی پاکستان اورافروز فارما کے جیسے ہی ہیں، ہر فارماسیوٹیکل کمپنی کا مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، اور اس مقصد کے لیے ہر کمپنی اپنی اپنی بساط کے مطابق ’دھندے‘ کرتی ہے۔ گزشتہ قسط میں ہم نے ڈاکٹروں کو اپنی دوائیں تجویز کرنے پر نقد رقم دینے والی کمپنی ہائی کیو فارما کے کالے کرتوتوں کا پردہ چاک کیا تھا۔ ہائی کیو کے دو نمبر کاموں کا سلسلہ صرف ڈاکٹروں کو مبینہ طور پر رشوت دینے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ چند ہی سالوں مین ترقی کی کئی منازل بیک وقت طے کرنے والی یہ کمپنی ہر وقت ڈاکٹر حضرات کی ہر ’جائز‘ اور ’ناجائز‘ خواہش پوری کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ہی ڈاکٹر ایک ہی فارمولے سے دو مختلف نامو ں سے تیار ہونے والی ادویات ایک ہی مریض کو تجویز بھی کردیتا ہے۔ ہائی کیو فارما غیر اخلاقی جرائم کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں سے کھیلنے کے گھناؤنے کھیل میں بھی مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں ہائی کیو فارما نے خاص طور پر بچوں میں استعمال ہونے والے جینرک Ceftriaxoneسے بننے والے تین مختلف برانڈ نام کے ساتھ تینوں کو الگ الگ قیمت پر فروخت کر رہی ہے۔ ہائی کیوفارما موثر جز Ceftriaxoneسے بننے والے انجکشن HIZONEکو جنوبی کوریا کی ایک کمپنی SHIN POONG فارما سے درآمد کرواتی ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے ڈرگ رجسٹریشن بورڈ نے Hizoneکو ایک ہی رجسٹریشن نمبر (022645) کے ساتھ درآمدہ ادویات کے زمرے میں رجسٹرڈ کر رکھا ہے۔ ہائی کیو فارما ’ہائی زون‘ 250ملی گرام کے ایک انجکشن کو 125روپے55پیسے اور’ہائی زون‘ 1گرام کے انجکشن کو 445روپے کی خوردہ قیمت پر فروخت کر رہی ہے۔ ہائی کیو فارما اسی موثر جزCeftriaxoneسے بننے والے دوسرے انجکشن Daylineکو درج بالا انجکشن سے کہیں زیادہ کم قیمت پر فروخت کر رہی ہے۔ ہائی کیو کی مینو فیکچرنگ فیسیلیٹی میں تیار ہونے والے انجکشن ’ڈے لائن‘250ملی گرام انجکشن(رجسٹریشن نمبر 061180) کی قیمت101روپے، ڈے لائن500ملی گرام انجکشن(رجسٹریشن نمبر061181) کی قیمت 170 روپے اور1گرام انجکشن (رجسٹریشن نمبر 061182) کی قیمت 321 روپے ہے۔ ہائی کیو فارما کے ان کالے دھندوں کا دائرہ صرف ان دو انجکشنزتک ہی محیط نہیں ہے۔ہائی کیو فارما نے Ceftriaxone سے تیار ہونے والے ایک اور انجکشن DAYZONE کو جنوبی کوریا کی کمپنی DAE SHIN فارما سیوٹیکل کمپنی لمیٹڈ سے درآمد کر وانا شروع کیا ہے۔ ڈریپ میں اس انجکشن کو درآمد شدہ ادویات کے زمرے میں رکھتے ہوئے رجسٹریشن نمبر022646کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہائی کیو فارما اس انجکشن کے 1گرام کے انجکشن کواپنی ہی کمپنی کے دیگر دو انجکشن کی نسبت 240روپے کی نہایت کم قیمت پر فروخت کر رہی ہے۔ ہائی کیو فارما کی زر پرستی اور انسانی جانوں سے کھیلنے کی اس سنگین غفلت کا ایک شرم ناک پہلو تو یہ ہے کہ ہائی کیو فارما نے ’ہائی زون‘ اور ’ڈے زون‘ انجکشن کی تیاری کے کسی مرحلے میں شامل نہیں ہے اور وہ پاکستان میں ان دونوں انجکشنز کی ری پیکنگ کا کام سر انجام دیتی ہے، لیکن اس کے باوجودہائی کیو فارما نے ان دونوں انجکشنزکی پیکنگ پر فخریہ طور پر ’Manufactured byہائی کیوفارما سیوٹیکلز لکھ رکھا ہے۔ ہائی کیو فارما کی یہ دونمبری ڈر گ ایکٹ 1976کی سنگین خلاف ورزی اور قابل گرفت جُرم ہے کیوں کہ بیرون ملک سے تیار ادویات کو درآمد کروانے والی کمپنی اس دوا کی مارکیٹنگ کرنے کا دعویٰ تو کر سکتی ہے لیکن اسے تیار کرنے کا دعویٰ کسی صورت نہیں کر سکتی۔ بیرون ملک خصوصا بھارت سے تیار ادویات منگوا کر ان کی ری پیکنگ کرکے کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کرکے ادویہ ساز ادارے نہ صرف غریب مریضوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں بلکہ نقل و حمل میں درجہ حرارت اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان ادویات میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں سے انسانی جانوں کو لاحق خطرات کو بھی فارما سیوٹٰکل مافیا اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی متعلقہ حکام نے یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔واضح رہے کہ CEFTRIAXONE SODIUM کی خوردہ قیمت اس کی مقرر کی گئی قیمت سے کئی سو گنا کم ہے۔ CEFTRIAXONE SODIUM کے تیار انجکشن کی درآمدی قیمت اور ان سے کئی گنا ناجائز منافع کمانے والی فارما سیوٹیکل مافیا پر تفصیلی رپورٹ آئندہ شمارے میں شائع کی جائے گی۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں