کوئٹہ اورپاراچنا میں دہشت گردی کی وارداتیں سِرا کلبھوشن سے ملتانظر آتاہے
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق کوئٹہ اور پاراچنار میں پے درپے 3 دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں جن میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جاتی ہے، اطلاعات کے مطابق کوئٹہ کے انتہائی حساس علاقے گلستان روڈ پرواقع آئی جی آفس کے قریب شہدا چوک پر بارود سے بھری ایک گاڑی کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں 7 پولیس اہلکاروں سمیت کم وبیش 15 افراد جاں بحق اور کم از کم 16 افراد زخمی ہوئے ،جبکہ پاراچنا ر کے مشہورٹل اڈہ کے قریب طوری مارکیٹ یکے بعد دیگرے دو دھماکوں کے نتیجے میں بھی کم وبیش 15 افراد کے جاں بحق اور 50 سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
کوئٹہ اور پاراچنار دونوں ہی گزشتہ کچھ دنوں سے دہشت گردوںکی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی سخت چیکنگ اور پیٹرولنگ کے باوجود دہشت گرد کوئی نہ کوئی کارروائی کرکے اپنے وجود کااحساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔بظاہر یہ دہشت گردی کی عام وارداتیں ہیں اور جس طرح پاکستان افغانستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کے بعد یہ کارروائیاں جاری ہیں، اسی طرح کوئٹہ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اگرچہ پاک فوج کی پیہم کوششوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو کسی اہم ٹھکانے کو نشانہ بنانے کی ہمت نہیں ہورہی ہے لیکن وہ کسی نہ کسی علاقے میں کارروائی کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اگرچہ پاک فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کی طاقت ختم ہوچکی ہے لیکن ابھی ان کا وجود پوری طرح ختم نہیں ہواہے۔لیکن کوئٹہ میں ہونے والی تازہ ترین وارداتوں کا ایک سرا کلبھوشن یادیو کو سنائی جانے والی موت کی ا س سزا سے ملتا ہے جو کلبھوشن کے سرپرست اعلیٰ بھارت کو کسی طرح ہضم نہیں ہورہی ہے اور وہ کلبھوشن کو اس کے بھیانک جرم کے باوجود زندہ سلامت واپس بھارت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے کبھی وہ عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتاہے اور کبھی اقوام متحدہ سے فریاد کرتاہے، لیکن ہر جگہ سے مایوس ہونے کے بعد اب اس نے پاکستان میں کلبھوشن یادیو کے بنائے ہوئے نیٹ ورک کے بچے کھچے مہروں اور افغان انٹیلی جنس کے پروردہ دہشت گردوں کے ذریعہ دہشت گردی کی اس طرح کی کارروائیوں کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانے اور اس طرح کلبھوشن کو رہاکرنے پر مجبور کرنے کاحربہ اختیار کرنا شروع کردیاہے اور کوئٹہ اور پاراچنا ر میں ہونے والے دھماکے بھی یقینا اسی کا ایک حصہ ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے ابتدا ہی میں افغانستان کو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے باہمی تعاون اور مشترکہ کوششوں کی پیشکش کی تھی اور افغان حکومت کویہ باور کرایاتھا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی دنیا اب روز بروز سکڑتی جارہی ہے اور جوں جوں دنیا سکڑ رہی ہے قوموں کے معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کاکردار بھی بڑھتا جارہاہے، جس کا اندازہ برطانیہ ،امریکا، جرمنی، فرانس ،آسٹریلیا اور دوسرے یورپی اور غیر یورپی ممالک کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کے معاہدوں سے لگایاجاسکتاہے۔ان معاہدوں سے متذکرہ بالا تمام ممالک کو بلاشبہ نمایاں فوائد حاصل ہوئے ہیں اور دہشت گردوں کے عزائم کے حوالے سے بروقت اطلاعات اور معلومات کی ایک دوسرے کو فراہمی کے نتیجے میں دہشت گردوں کے متعدد بھیانک منصوبوں کو قبل از وقت ناکام بناکر ان ملکوں کے عوام کو ان کی ہلاکت خیزی سے بچانا ممکن ہوسکاہے۔
پاکستان کی ان ہی کوششوں کے نتیجے میںافغانستان میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس کی معلومات کے تبادلے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا ، انٹیلی جنس شیئرنگ کے اس معاہدے کا مقصد طالبان اور ان کے ذیلی دھڑوں کی سرگرمیوں اور متوقع کارروائیوں کے بارے میں ایک دوسرے کو بروقت آگاہ رکھناتھا تاکہ متعلقہ ممالک اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے بڑے سانحات سے بچ سکیں۔لیکن پاکستان ،افغانستان اور بھارت کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اس معاہدے کاپاکستان کو اب تک نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکاہے بلکہ پاکستان کو اس کے منفی نتائج کاسامنا کرناپڑرہاہے،اور افغانستان میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی توانائیاں طالبان ، القاعدہ اور ان کی ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں کا پتہ چلاکر ایک دوسرے کو ان سے آگاہ کرنے کا بنیادی فریضہ انجام دینے کے بجائے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے تربیت یافتہ دہشت گرد بھیجنے کے علاوہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں کیلئے فنڈز اور اسلحہ کی فراہمی کاذریعہ بن گئی ہیں، افغانستان میں موجود بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ صرف یہ کہ تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل کرانے اور پاکستان میں موجود اپنے ملک دشمن ایجنٹوں کو فنڈز اور اسلحہ فراہم کررہی ہیں بلکہ وہ انھیں ان اہداف کی بھی نشاندہی کرتی ہیں جہاں وہ آسانی سے ضرب لگاسکتے ہوں۔اسی پر بس نہیں بلکہ یہ ایجنسیاں بعض اوقات پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے خود افغانستان میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے فنڈ اور سہولتیں فراہم کرتی ہیں اور ان واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پاک افغان تعلقات میں بگاڑ پیدا کررہی ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔جس کااندازہ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور اس کے بعد بھارت اور بھارتی رہنمائوں کی ایما پر افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر عاید کئے گئے الزامات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔
بھارتی رہنمائوں نے کمال مہارت اور چالاکی سے افغان حکومت کوترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد کی فراہمی کے بعض معاہدوں کے ذریعے یہ باور کرادیا ہے کہ اس خطے میں بھارت ہی ان کا حقیقی دوست اور ہمدرد ہوسکتاہے، اور افغان رہنمائوں نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جال میں پھنس کر پاکستان کی جانب سے ہر آڑے وقت افغان عوام اور حکومت کی لامحدود حمایت اور امداد کو نظر انداز کرکے بھارت کی ہاں میں ہاں ملانا یعنی بھارت کی ڈگڈگی پر ناچنا شروع کردیاہے اوراس طرح افغانستان مکمل طورپر بھارت کی ایک کالونی بن کر رہ گیاہے جس کے تمام معاملات پس پردہ رہ کر بھارتی حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں چلارہی ہیں۔
پاکستان کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کو اس صورت حال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے ان واقعات کی باریک بینی کے ساتھ تفتیش کے بعد ان میں بھارتی اورافغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ممکنہ کارستانیوں کے شواہد عالمی برادری کے سامنے پیش کرکے ان کو اس طرح کی حرکتوں سے باز رکھنے کیلئے عالمی سطح سے دبائو ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے
اوربھارت کے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے کلبھوشن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی میں کسی طرح کی نرمی نہیں کرنی چاہئے، پاکستان کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے ارباب اختیار کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اگر انھوںنے اس معاملے میں تھوڑی بھی نرمی دکھائی تو بھارت پاکستان پر حاوی ہوتا جائے گا اور ہر معاملے میں پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کرتارہے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دے گی اور قومی مفادات کے معاملے پر کسی طرح کا دبائو قبول نہیں کرے گی۔۔