میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ترکیہ کا وقف نظام اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ

ترکیہ کا وقف نظام اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۵ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

افتخار گیلانی

ایک تحقیق کے مطابق، اگست 2019 تک ترکیہ میں 52000 مضبوط وقف، 5268 نئے وقف، 256 مُلحق وقف، اور 167 اقلیتی وقف رجسٹرڈ تھے ۔یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی اس ملک میں اپنے وقف ہیں، جن کا وہ اپنی مرضی سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں جب کسی موضوع کو یا مجوزہ قانون کو بحث کے لیے منتخب کیا جاتا ہے ، تو بر سر اقتدار پارٹی کی طرف سے پارلیامانی امور کے وزیر جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں سے ان کے چیف وہپ بحث میں حصہ لینے والے اراکین پارلیامان کی ایک فہرست اسپیکر کو تھما دیتے ہیں۔مغربی ممالک و ترکیہ کی طرح ان اراکین پارلیامان کا کوئی اپنا ریسرچ سیل نہیں ہوتا ہے ۔ گو کہ ہندوستانی پارلیامنٹ کے احاطہ میں دنیا کی ایک بہترین لائبریری موجود ہے ، مگر کیا مجال کہ چند ایک کو چھوڑ کر جن میں موجودہ اراکین میں ششی تھروراور اسد الدین اویسی شامل ہیں کہ کوئی اور ایم پی اس کا استعمال کرتا ہو ا نظر آجائے ۔اب ہوتا یہ ہے وہ سبھی اراکین، جن کا نام بولنے والوں کی لسٹ میں ہوتا ہے وہ پارلیامنٹ کے ریسرچ اور ریفرنس کے شعبہ میں پہنچ جاتے ہیں اور موضوع پر مواد حاصل کرنے کے لیے ایک فار م پُر کرتے ہیں۔اسی سیل کا عملہ ان کے لیے ریسرچ کرتا ہے اور ان کو اعداد و شمار وغیرہ فراہم کرتا ہے ۔ اب چاہے کوئی برسراقتدار پارٹی کا ممبر ہو یا اپوزیشن کا، اس موضوع پر سبھی کے پاس ایک ہی جیسا مواد اور اعدا د و شمار ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں وقف پر جب بحث ہوئی، تو اس میں سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے متعلقہ پارٹیوں سے وابستہ ریسرچ اداروں نے بھی اراکین کو مواد دیا ہوگا، مگر عام موضوعات، جیسے اگر کسی وزارت کی گرانٹ کے حوالے سے بحث ہو رہی ہو، تو سبھی اراکین کی تقریر کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے ، کیونکہ تحقیق کا منبع ایک ہی ہوتا ہے ۔میں لوک سبھا کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کا ممبر اور پھر ڈپٹی چیئرمین رہ چکا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میٹنگ میں ہم نے تجویز پاس کی تھی کہ ریسرچ اور ریفرنس کے شعبہ تک صحافیوں کو بھی رسائی حاصل ہو۔مگر اس وقت کے اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے اس کو مسترد کر دیا۔ جب ہم نے ان سے ملاقات کرکے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی، تو ان کا جواب تھا کہ اراکین پارلیمان کی طرح پھر صحافی بھی اپنی کوئی تحقیق نہیں کریں گے ، بلکہ اسی شعبہ کے زیر اثر ہر اخبار میں بس ایک ہی طرح کی دلیلیں اور اعداد و شمار پڑھنے اور سننے کو ملیں گے ۔ان کا یہ معقول جواب سن کر ہم نے اس تجویز پر اصرار کرنے سے گریز کردیا۔ابھی حال ہی میں جب پارلیامنٹ میں وقف بل پر بحث ہو رہی تھی، تو سابق وزیر انوراگ ٹھاکر اور اڑیسہ سے ایم پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان سمبت پاترا اور کئی دیگر اراکین نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلامی ممالک، خصوصاً ترکیہ، میں وقف کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے ۔راجیہ سبھا میں بھی کئی اراکین نے اس کو دہرایا۔مگر بھلا ہو بی جے پی صدر جگت پرکاش نڈا کا کہ انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ترکیہ میں وقف کا ادارہ ہے ، مگر بتایا کہ 1924میں اس کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہے ۔ اب ا ن کو کس طرح بتائیں کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط وقف ترکیہ کا ہی ہوگا۔ لگتا ہے کہ ان کی تقریر کے لیے بھی مواد ریسرچ اور ریفرنس شعبہ سے کسی نے تیار کیا ہوگا۔
سلطنت عثمانیہ کے دور میں جب سلاطین جنگ جیت کر آتے تھے ، تو وہ ایک مسجد تعمیر کر کے اس کے نام جاگیر یا اور کوئی جائیداد وقف کرتے تھے ۔ جس سے اس جنگ کے شہدا کے وارثین اور زخمی پلتے تھے ۔یہ بس ایک عبادت گاہ نہیں ہوتی تھی، مگر کمیونٹی سینٹر کے علاوہ تحقیق و تالیف کے مراکز بھی ہوتے تھے ۔ ان شہدا کے وارثین کی ان اداروں کے ساتھ ایک رفاقت بھی رہتی تھی اور وہی اس کے نگران کے فرائض انجام دیتے تھے ۔ترکیہ میں مساجد اب بھی ایک کمیونٹی سینٹر کے بطور کام کرتی ہیں۔ انقرہ میں ہمارے محلہ سے متصل مسجد میں کام کرنے والی خواتین کے لیے کریچ کی سہولیت موجود ہے یعنی وہ اپنے شیر خوار بچے وہاں چھوڑ دیتی ہیں۔ دن میں گھریلو خواتین کے لیے کوکنگ و قرآن و تجوید کی کلاس ہوتی ہے ۔سنیچر اور اتوار کو جب اسکولوں کی چھٹی ہوتی ہے ، مساجد میں دن کے وقت بچوں کے لیے قرآن اور اسلامیات کی کلاسز ہوتی ہیں۔اسی طرح مسجد کے احاطے میں ہی محلہ فیملی ہیلتھ سینٹر ہے ، جہاں ہمہ وقت کئی ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔ اس پورے سیٹ اپ کا ذمہ دار مسجد کا امام ہوتا ہے ، جو حکومت کا ایک اعلیٰ عہدیدار ہوتا ہے ۔اس کے رتبہ کا انداز ہ مساجد کے مینار سے ہوتا ہے ۔ بغیر مینا ر کی مسجد کے امام کا رتبہ کم ہو تا ہے ، ایک مینار والی مسجد کے امام کا رتبہ حکومتی ادارہ کے سیکشن آفیسر جتنا ہوتا ہے ۔استنبول کی بلیو مسجد کے چھ مینار ہیں۔ ترکیہ کی مذہبی امور یعنی دیانت محکمہ کے سربراہ وہاں خود ہی امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔امام کا تقرر ہی مسابقتی امتحان کے علاوہ اس کی آوازاور خوش گلو ہونے پر منحصر ہوتا ہے ۔ مدارس یعنی امام حاطف اسکولوں میں اسی لیے شاید میوزک کو بطور ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے ۔
خیر ذکر ترکیہ کے وقف کا ہو رہا تھا۔نڈا صاحب کا کہنا یہاں تک سچ تھا کہ 1924میں ترکیہ میں وقف جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا۔ مگران کے علم میں شاید نہیں ہے کہ 2008میں ترکیہ کی پارلیمنٹ نے وقف قانون میں بڑی تبدیلی کرکے وقف جائیدادیں ان کے نگرانوں کو لوٹا دیں۔جن کے نگراں یا متولی نہیں تھے ان کو وقف جنرل ڈائرکٹوریٹ نے اپنی تحویل میں لیا۔ اسی قانون کا حوالہ دے کر سلطان مہمت ٹرسٹ نے استنبول کی مشہور زمانہ عمارت آیا صوفیہ کی ملکیت پر عدالت میں دعویٰ دائر کیا۔ کیونکہ اس کو بھی سرکاری تحویل میں لے کر مسجد سے میوزم میں تبدیل کیا گیا تھا۔جنوبی ایشیاء میں کئی تجزیہ کار اس قضیہ کا موازنہ بابری مسجد کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر اس پر غور کرنا ضروری ہے کہ 1453کے بعد مسیحی فرقہ نے کبھی اس پر دعویٰ نہیں کیا۔ عدالت میں بھی یہ تنازعہ ترکیہ کے محکمہ سیاحت اور سلطان مہمت ٹرسٹ کے درمیان تھا۔یہ ٹرسٹ مذہبی امور کی وزارت کے تحت کام کرتا ہے ۔یعنی حکومت کے دو محکمے ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے ۔ عیسائی اس مقدمہ میں کبھی بطور فریق شامل نہیں تھے ۔استنبول کے پنورما میوزم میں رکھی دستاویزات کے مطابق، اس عمارت کو عثمانی سلطان محمد نے استنبول فتح کرنے کے بعد باضابطہ خریدا تھا ، پھر اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔یعنی 1453سے 1935تک اس کا استعمال بطور مسجد ہوتا تھا۔عدالت نے ان دستاویزات کی وجہ سے 2020میں سلطان مہمت ٹرسٹ کو اس کا نگران تسلیم کرکے یہ عمارت اس کو لوٹا دی، جس نے اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا۔
ایک دہائی قبل جب ترکیہ اور اسپین کے درمیان تہذیبوں کے اتحاد کے بینر تلے گفت و شنید کا دور چلا تھا، تو بتایا جاتا ہے کہ ترکیہ کی حکومت نے اس عمارت کو مسیحی برادری کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی اور اس کے بدلے مسجد قرطبہ کو مسلمانوں کے سپرد کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آیا صوفیہ آرتھو ڈکس مسیحیوں کا مرکز رہا ہے ۔ اسپین میں کیتھولک عیسائیوں کی آبادی ہے ۔ اگر آیا صوفیہ دوبارہ گرجا میں تبدیل ہوجاتا، تو خدشہ تھا کہ ویٹیکن کی اہمیت کم جاتی اور آرتھو ڈکس عیسائی جو اب کسی مرکز کے بغیر قلیل تعداد میں ہیں دوبارہ عروج حاصل کرتے ۔یہ بتایا جاتا ہے کہ ویٹیکن کے پادریوں نے اس کے حصول کے لیے منع کردیا۔ ترکیہ میں ر یاستی سرپرستی میں قائم ہونے والے ارسادی اوقاف ریاست کے ذریعے مخصوص سرکاری آمدنی کو عوامی فلاح کے لیے مختص کر کے قائم کیے گئے ہیں۔ ترکیہ کے نمایاں ارسادی اوقاف میں سوشل ایڈ اینڈ سالیڈیرٹی وقف، ماحولیاتی تحفظ وقف، اور ترک معارف فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ترکیہ میں وقف کا اپنا بینک بھی ہے ،جس کا نام ہی واکف بینک ہے ۔ جو ترکیہ کا دوسرا بڑا بینک ہے ۔ 2023میں اس کی آمدن ہی 29بلین لیرا یعنی 70ارب روپے کے لگ بھگ تھی ۔ اس کی نیویارک، بحرین، عراق، قطر، آسٹریا اور جرمنی کے فریکفورٹ اور کولون شہروں میں شاخیں ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق، اگست 2019 تک ترکیہ میں 52000 مضبوط وقف، 5268 نئے وقف، 256 مُلحق وقف، اور 167 اقلیتی وقف رجسٹرڈ تھے ۔یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی اس ملک میں اپنے وقف ہیں، جن کا وہ اپنی مرضی سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا کہ وقف کی ایک قسم وہ ہیں جن کے نگراں یا متولی کا 2008 کے بعد کوئی پتہ نہیں چلا۔ اس لیے ان کو وقف جنرل ڈائریکٹوریٹ خود چلاتا ہے ۔ ان کا بنیادی ذریعہ آمدن وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والا کرایہ ہوتا ہے ۔ یہ آمدنی مختلف فلاحی کاموں پر صرف کی جاتی ہے ۔سال 2008 میں ہی کارپوریٹ وقف یعنی کیش وقف بھی متعارف کرایا گیا۔ یہ نظام در اصل شہریوں کو جائیداد اور مقامی ٹیکس ادا کرنے میں مدد دینے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ یہ وقف عوام سے چندہ اکٹھا کر کے نہ صرف ٹیکس کی ادائیگی میں مدد دیتے تھے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں دیگر فلاحی سرگرمیاں بھی سرانجام دیتے تھے ۔واکف بینک اسی کیش سے شروع کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکیہ میں ‘وقف کاتیلم بینک’ بھی موجود ہے ، جو ایک اسلامی بینک ہے اور وقف کے جدید مالیاتی نظام کا حصہ ہے ۔ انقرہ کے پرانے شہر میں، وقف کا میوزیم بھی ہے ۔جس پر حال ہی میں دی وائر میں افروز عالم ساحل کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے ۔
ترکیہ کی ایک اہم غیر سرکاری تنظیم انسان حق و حریتلری و انسانی یاردم وقف یعنی آئی ایچ ایچ کا پورا نظام ہی وقف سے چلتا ہے ۔ یہ تنظیم 125ممالک میں امدادی سرگرمیوں میں شامل ہے ۔ اس کا اثر و رسوخ اس قدر ہے کہ افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں جو گفت و شنید ہو رہی تھی، اسی میز پر امریکہ، طالبان اور قطر کے سرکاری اہلکاروں کے علاوہ اس تنظیم کا نمائندہ بھی موجود ہوتا تھا۔اسی طرح فلپائن کے بنگس مورہ علاقے میں شورش کو ختم کرنے کے سہرا اسی تنظیم کو جاتا ہے ۔ انہوں نے ہی مورو اسلامک فرنٹ نامی عسکری تنظیم اور فلپائی کی حکومت کے درمیان مصالحت کار کا کام انجا م دیا۔ اسی طرح ایتھوپیہ، آذربائیجان اور آرمینا اوردیگر ملکوں میں بھی یہ امداد کے علاوہ تنازعات کے حل کا کام کرتے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس تربیت یافتہ سفارتی عملہ بھی ہے ۔اسی طرح دیگر غیر سرکاری تنظمیں جن میں اسما کوپرو شامل ہے ، جو غیر ملکی طالبعلموں کو رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہے ، بھی وقف سے ہی چلتی ہے ۔عیدالاضحیٰ کے موقع پر ترک اخباروں میں وقف کی جائیدادوں پر پلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے رضاکاروں کی بھرتی کے لیے اشتہارات شائع ہوتے ہیں۔ یہ رضا کار افریقہ، ایشیا ء اور جنوبی امریکہ کے دور دراز ممالک میں جاکر وہاں قربانی کا نظم کراتے ہیں اور اس کا گوشت وغیرہ مقامی آبادی میں بانٹتے ہیں۔کالم کا ماحصل یہ ہے کہ اگر نیت اور خلوص ہو، تو وقف کی جائیدادوں کی آمدن سے ایک بڑی آبادی کا بھلا ہو سکتا ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں