ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف نیب تحقیقات، فارما کمپنیاں متحرک
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل)وفاقی کابینہ نے بآلاخر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے غلط فیصلے کے بعد فارما کمپنیوں سے ناجائز منافع کی ضبطی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسری طرف نیب نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور اس میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں وزارت صحت اور ڈریپ کے کردار کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ جرأت کو اسلام آباد ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق نیب پہلی دفعہ فارما کمپنیوں اور ڈریپ افسران کے درمیان موجود ملی بھگت کا کھوج لگانے میں نہایت سنجیدہ ہے۔ اس ضمن میں بعض حساس نوعیت کی اطلاعات پہلے سے موجود ہیں۔ جس کا جائزہ پہلے ہی لیا جاچکا ہے۔ حالیہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے پہلے ڈریپ کے بعض افسران جس طرح فارما کمپنیوں سے تال میل بناتے رہے۔ اور وزیراعظم کی جانب سے 72گھنٹوں میں قیمتوں میں کمی کی واضح ہدایت کے باوجود ڈریپ افسران نے جس طرح فارما کمپنیوں کے ساتھ مل کر خاموش کھیل کھیلا اور وزیر اعظم کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیر صحت کو ”بہلایا“، اس کی تفصیلات نے ریاستی حلقوں کو چونکا دیا ہے کہ کس طرح فارما کمپنیوں کے سفید پوش مالکان مملکتی امور اور عوامی مفادات کا یرغمال بنا کر پیسوں کی بے پناہ لالچ میں کوئی بھی فیصلے کرنے کوتیاری رہتے ہیں۔
ڈاکٹر اسلم افغانی اور ان کے پیش رو ڈاکٹر شیخ اختر حسین نے نہ صرف خود کرپشن کی نت نئی مثالیں قائم کیں بلکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی آڑ میں ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے افسران کو دل کھول کر کرپشن کرنے کے مواقع فراہم کیے
اس ضمن میں بعض حساس نوعیت کی معلومات مناسب وقت پر منظرعام پر لائی جائیں گی۔ یہاں سر دست یہ نکتہ واضح کرنا مقصود ہے کہ نیب کی جانب سے تحقیقات کے فیصلے کے باوجود فارما کمپنیاں اس معاملے کو غلط رخ پر ڈالنے اور نیب کی تحقیقات کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں متحرک ہو چکی ہیں۔اس ضمن میں ڈریپ کے افسران سمیت وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کو رابطوں میں لیا جاچکا ہے اور نئے سرے سے حکومت اور نیب کو گمراہ کرنے کی تیاریاں
کی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ ڈریپ کا کام ہی فارما کمپنیوں کے غلط کاموں کی نگرانی ہے مگر ڈریپ کے افسران اور وفاقی ڈرگ انسپکٹرز فارما کمپنیوں کے ساتھ غلط کاریوں اور جرائم میں شراکت دار بن چکے ہیں۔ چنانچہ قیمتوں میں اضافے سے لے کر مارکیٹ میں دواؤں کی مصنوعی قلت تک سارے کاموں میں خود ڈریپ کے وفاقی ڈرگ انسپکٹرز شریک ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے فارما کمپنیوں کے طریقہ واردات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
نیب کے خود اپنے جون2016ء میں دائر کردہ ریفرنس میں واضح تھا کہ چاروں صوبوں کے چیف ڈرگ انسپکٹرز بھی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے مکروہ دھندے میں ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے ساتھ ملوث تھے
فارما کمپنیاں،ڈریپ افسرا ن اوروفاقی ڈرگ انسپکٹرزمیں رابطے تیز ہوگئے،نئے سرے سے حکومت اور نیب کو گمراہ کرنے کی تیاریاں کی جانے لگیں، ادویہ ساز اداروں کا ڈریپ کے اندر تک پھیلا ہوا جال کام کرنے لگا
ذیل میں قیمتوں میں اضافے سے لے کر ڈریپ میں اپنی من پسند تعیناتیوں سے کھیلے جانے والے فارما کمپنیوں کے کھیل کے ایک نہایت ہی چھوٹے حصے کو سامنے لایا جارہا ہے تاکہ یہ اندازا لگایا جاسکے کہ ادویہ ساز ادارے کس طرح ڈریپ کے اندر تک اپنا جال پھیلا چکے ہیں اور ڈریپ افسران سے لے کر وفاقی ڈرگ انسپکٹرز تک کچھ لوگوں کی مکمل تحقیقات کرکے اُنہیں نشانِ عبرت بنائے بغیر یہ معاملات کبھی درست نہیں ہوسکیں گے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے نام سے بننے والا ادارہ اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی کرپشن کی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے۔ بدعنوانیوں کی اس غلیظ دلدل میں ایک ڈرگ انسپکٹر سے لے کر ڈریپ کے اعلی عہدے دار تک سب شامل ہیں۔ اس ادارے کی برکت سے کتنے ہی معمولی سرکاری ملازم دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کے ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ جس کی واضح مثالیں صوبائی سطح پر توسابق چیف ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی، عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی ہیں اور وفاقی سطح پراس کی بدترین مثالیں فارما کمپنیوں کی”ڈارلنگ“ ڈرگ انسپکٹر عبد الرسول شیخ اور نارتھ ناظم آباد سے ڈیفنس کے مہنگے ترین علاقے میں منتقل ہوجانے والی ایک خاتون وفاقی ڈرگ انسپکٹر ہیں۔
نیب نے اپنی تحقیقات میں اگر وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کے طرز زندگی اور مختلف ناموں سے موجود اثاثوں کی تفصیلات کا ہی جائزہ مناسب طور پر لے توبدعنوانیوں کی وضاحت کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اس ضمن میں جرأت کی اپنی تحقیقات کو بھی قسط وار منظرعام پر لایا جائے گا تاکہ تحقیقاتی اداروں کو ان کے خلاف کارروائی میں آسانی رہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان، وفاقی اور صوبائی ڈرگ انسپکٹرز، ڈرگ اینالسٹ کی ’ایمان داری‘ کا واضح ثبوت آمدن اور اخراجات کے موازنے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ڈرگ ایکٹ 1976 کے تحت یہ افراد سرکاری ملازمت کے ساتھ کوئی کاروبار کرنے کے اہل نہیں لیکن اس کے باوجود، ایک سابق چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ نے اسٹاک مارکیٹ میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، بیرون ملک بچوں کو سیٹل کر رکھا ہے تو اسی کا پیش روسابق چیف ڈرگ انسپکٹر جعلی ڈگریوں پر لائسنس بنانے کے ساتھ ساتھ فارمیسی اور ادویہ ساز اداروں کے لیے کنسلٹنیسی خدمات فراہم کرتا ہے، ایک وفاقی ڈرگ انسپکٹر صوبائی وزیر کے ساتھ مل کر ادویات درآمد کرنے کے دھندے میں ملوث ہے تو ایک خاتون وفاقی ڈرگ انسپکٹر نے کنسٹرکشن کے کام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام جب 2012 میں عمل میں لایا گیا تو اس کے ایکٹ میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی تھی کہ کوئی بھی قائم مقام سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) کے طور پر تین ماہ سے زیادہ عرصے تک خدمات سر انجام نہیں دے سکتا، لیکن ڈریپ اپنے ہی وضع کردہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس اہم ادارے کو دو سال تک کسی سربراہ کے بغیر چلاتی رہی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق سی ای او کے عہدے کے لیے تین بار اشتہارات جاری کیے گئے لیکن کوئی تقرری عمل میں نہیں آسکی جس کے بعد چارٹرڈ اکاؤئنٹینسی فرم فرگوسن کو درخواستیں وصول کرنے اور امیدواروں کے نام شارٹ لسٹ کرنے کے لیے ہائر کیا گیا۔ وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے ایک عہدے دار کے مطابق پبلک سیکٹر سے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈریپ کے عہدے کے لیے چار افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، جن میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، کراچی ڈاکٹر تنویر انجم، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، لاہورڈاکٹر شیخ اختر حسین، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اسلام آبادڈاکٹر عبدالر شید اور خیبر پختون خوا کے ڈرگ اینالسٹ خالد خان کے نام شامل تھے۔ جب کہ نجی شعبے سے اوٹسوکا فارما سیوٹیکل کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر(اور شراکت دار) اسلم افغانی اور نووارٹس فارما سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احسن صدیقی کے نام شامل تھے۔ تاہم ڈریپ قوانین کو بری طرح پامال کرتے ہوئے وزیر اعظم سے سی ای او ڈریپ کے عہدے کی منظوری کے لیے صرف ڈاکٹر اسلم افغانی اور ڈاکٹر احسن صدیقی کے نام بھیجے گئے۔ جس کا لولا لنگڑا جواز یہ پیش کیا گیا کہ پبلک سیکٹر سے تعلق رکھنے والے چاروں امیدواروں کے نام صرف اس لیے ڈراپ کر دیے گئے کیوں کہ ان چاروں پر کرپشن کے الزامات تھے۔ اگر ڈریپ حکام کے اس جواز کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر ڈریپ کی کارکردگی پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام ان چاروں افراد کی کرپشن سے آگاہ تھے تو پھر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اسلم افغانی کی تعیناتی کے وقت بدعنوان قرار دیے گئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، لاہورڈاکٹر شیخ اختر حسین کی بدعنوانیوں کا سلسلہ تو وقت کے ساتھ مزید بڑھ چکا تھا اور ان کے خلاف قومی احتساب بیورو میں کیس بھی چل رہا تھا، لیکن اس کے باوجود تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی سیکریٹری صحت ایوب شیخ نے ڈاکٹر شیخ اختر حسین کو ڈریپ کا نیا سی ای او کیسے تعینا ت کردیا۔ جب کہ اسی سیکریٹری صحت نے ڈاکٹر اسلم افغانی کی تعیناتی کے وقت شیخ اختر حسین کا نام کرپشن کے الزمات کی بنیادپر خارج کردیا تھا۔ درحقیقت فارما کمپنیاں اتنی جری اور احتساب سے اس قدر بے نیاز ہو چکی ہیں کہ وہ اپنے نگران ادارے کے سربراہ (سی ای او) کی تعیناتی بھی اپنی مرضی کے بغیر نہیں ہونے دیتی۔تاکہ اُن کے متصادم مفادات کا تحفظ خود اُن کے نگران ادارے سے کرایا جا سکے۔
چنانچہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہوتے ہی ڈاکٹر اسلم افغانی نے اپنی منظور نظر کمپنیوں کو نوازنا شروع کردیا۔ ڈریپ کے اعلی ترین عہدے پر فائز ڈاکٹر اسلم افغانی سے مستفید ہونے والی کمپنیوں میں Otsukaسر فہرست رہی۔ Otsukaکمپنی کے حصص میں شراکت دار ڈاکٹر اسلم افغانی نے اپنی اس کمپنی کو مبینہ طور پر اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا جس کی واضح مثال حصص بازار میں اوٹسوکا کے حصص کی قیمتوں میں یک دم ہونے والا اضافہ ہے، ڈاکٹر اسلم افغانی کے سی ای اور ڈریپ بننے سے پہلے اس کمپنی کے فی حصص کی قدر46روپے تھی جو کچھ ہی عرصے میں بڑھ کر 228روپے فی حصص پر جا پہنچی۔ ڈاکٹر اسلم افغانی نے مبینہطور پر اوٹسوکا کی حریف کمپنیوں کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے بلاجواز کارروائیاں کیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں نارمل سلائین، رنگر لیکٹیٹ، ڈیکسٹروز واٹر اور دیگر اہم ڈرپ کی قلت پیدا ہونے کی وجہ سے اوٹسوکا کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ اس بات کا واضح ثبوت ڈاکٹر اسلم افغانی کے دور میں اوٹسوکا پروڈکشن ریکارڈ ہے۔صرف اس ایک مثال سے اندازاہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ڈریپ کے اہم مناصب خود فارما کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بدعنوان ترین افسران میں سر فہرست ڈاکٹر اسلم افغانی اور ان کے پیش رو ڈاکٹر شیخ اختر حسین نے نہ صرف خود کرپشن کی نت نئی مثالیں قائم کیں بلکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی آڑ میں ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے افسران کو دل کھول کر کرپشن کرنے کے مواقع فراہم کیے، جو کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام سے ہی کرپشن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے۔نیب اس حوالے سے خود اپنے ہی ایک دائر کردہ ریفرنس پر بھی پورا دھیان رکھے جسے جون 2016 میں ڈریپ کی ڈرگ پرائسنگ کمیٹی (ڈی پی سی) کے افسران کی بد عنوانیوں کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔ اس ریفرنس میں ڈی سی پی کے سابق چیئر مین ارشد فاروق فہیم، وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کے ایڈیشنل سیکریٹری اور ڈی سی پی کے سابق رکن ڈاکٹر محمد علی، سلیم عشرت حسین، محکمہ صحت سندھ کے چیف ڈرگ انسپکٹر ایاز علی خان، پنجاب کے سابق چیف ڈرگ کنٹرولر اور پاکستان ڈرگ ٹیسٹنگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے چیف آپریٹنگ آفیسرصابر علی، محکمہ صحت خیبر پختون خوا کے چیف ڈرگ انسپکٹر عبدالسلام مفتی، محکمہ صحت پنجاب کے چیف ڈرگ انسپکٹر سلطان احمد، محکمہ صحت بلوچستان کے سینئر ڈرگ انسپکٹر راشد لطیف شیخ اور وزارت خزانہ کے سابق ڈائریکٹر کے نام شامل تھے۔ اس معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ عوام کو سستی اور معیاری ادویات کی فراہمی اور ادویہ ساز اداروں کی نگرانی کے لیے رکھے گئے چاروں صوبوں کے چیف ڈرگ انسپکٹرز بھی اس مکروہ دھندے میں ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے ساتھ مل کر عوام کو مہنگی ادویات کی فراہم میں ملوث رہے۔ نیب کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق ڈی سی پی کے ارکان اور صوبائی چیف ڈرگ انسپکٹرز نے فارما سیوٹیکل کمپنیوں سے مالی فوائد حاصل کرتے ہوئے 9/اکتوبر 2012، 22/ جنوری 2012 اور19/ جنوری2012 کو ہونے والی ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کی میٹنگز میں اپنی منظور نظر فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنے کے منظوری دی۔ ڈی سی پی اور صوبائی چیف ڈرگ انسپکٹرز کی ملی بھگت سے میپل فارما سیوٹیکلز، اکھائی ایجنسز، زم زم کارپوریشن، گلیکسی فارما اور مارٹن ڈاؤ نامی ان کمپنیوں نے2012سے 30جون 2015تک ایک ارب روپے کا خالص ناجائز منافع کمایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کے افسران اور درج بالا کمپنیوں نے اپنے کالے دھندے پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں جمع کرائی گئی انوائسز میں خام مال کی قیمتیں بھی حقیقی قیمت سے زیادہ ظاہر کیں، اور اس مد میں انہوں نے خطیر زرمبادلہ باہر بھیج کر قومی خزانے کو الگ نقصان پہنچایا۔ (جاری ہے)