اپوزیشن جے آئی ٹی کو آخری حد تک پہنچانے پر توجہ دے
شیئر کریں
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری ذوالفقارعلی نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعداب7 دن میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں ، لاہور ہائیکورٹ بار کے عہدیداروں نے اس کے ساتھ متنبہ کیا ہے کہ اگر وزیراعظم نے ایک ہفتے میں استعفیٰ نہ دیا تو عدلیہ بحالی سے بھی بڑی تحریک چلائی جائے گی۔وکلا کاکہنا ہے کہ یہ واحد فیصلہ ہے جس میں پانچوں ججز ایک نکتے پر متفق ہیں، پاناما کے معاملے پر دنیا بھر سے استعفے آئے لیکن وزیر اعظم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ جائز ہے کیوں کہ وزیراعظم کے ماتحت افسران ان کے خلاف غیر جانبدار تحقیقات نہیں کرسکتے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرنے کہا کہ ہم وکلاکے ملک گیر کنونشن کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائیں گے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ وکلاعہدیداروں نے واضح کیا کہ بار نے ہمیشہ آئین اورقانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی ہے، وکلااب بھی جذبے اور لگن سے سرشار ہوکر اپنا پیٹ کاٹ کرکسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بغیر تحریک چلائیں گے، اگر چیف جسٹس پاکستان کے لیے تحریک چلائی جاسکتی ہے تو ملک بچانے کے لیے اس سے بڑی تحریک چل سکتی ہے۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد وزیراعظم سے وکلا کی جانب سے استعفے کے اس مطالبے سے قبل ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی وزیراعظم سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ کم از کم جے آئی ٹی کے فیصلے تک وزارت عظمیٰ کے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلیں،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم سے استعفے کے اس مطالبے پر اگرچہ وزیر اعظم کے رفقا ہاتھ جھٹک جھٹک اور پیر پٹک پٹک کر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو کام کرتے رہنے کی کلین چٹ دیدی ہے لیکن اندرون خانہ سب کچھ ٹھیک نظر نہیں آرہا ہے، جس کا اندازہ وزیر اعظم ہاﺅس میں اجلاسوںکے سلسلے اور وزیراعظم کی کابینہ کے ارکان اور کچن کابینہ میں شامل وفاقی وزرکی تواترکے ساتھ وزیراعظم نوازشریف سے ملاقاتوں سے ہوتاہے ،اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی چوہدری نثار علی خان‘ خواجہ آصف اور احسن اقبال نے وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی خاں بھی ان ملاقاتوں کے دوران وزیراعظم کے پاس موجود رہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اٹارنی جنرل وزیرا عظم کو پاناما کیس کے حوالے سے فیصلہ کے مختلف پہلوﺅں پربریفنگ دے چکے ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے قانونی مضمرات سے آگاہ کردیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی معاونین نے انہیں اپوزیشن کی جانب سے کیے جانیوالے مطالبات پر کسی دباﺅکا شکار نہ ہونے کامشورہ دیا ہے اوروزیر اعظم نے اپنے رفقا کے اس مشورے پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دینگے اور اپوزیشن کی مہم جوئی کا سیاسی محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باریک بینی سے مطالعہ کے بعد یقیناً حکومتی وکلاکی ٹیم‘ وزیراعظم کی کابینہ کے ارکان اور ان کے مداحین بخوبی یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس فیصلے میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے ارکان کے حق میں ایسی کوئی بات شامل نہیں ہے جس پر سکھ کا سانس لے کر خوشیوں کے شادیانے بجائے جائیں‘ محض وقتی طور پر کرسی بچ جانے پر وزیراعظم کے لیے مبارکبادوں اور مٹھائیوں کے انبار لگائے جائیں اور ”حق و باطل“ کی لڑائی میں ہم سرخرو ہو کر نکلے ہیں جیسے دل خوش کن نعرے لگائے جائیں۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ کی متعلقہ بینچ کے پانچوں فاضل ارکان نے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی کاروباری ڈیل کو مشکوک قرار دیا ہے حتیٰ کہ حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق وزیراعظم کے خاندان کے کاروبار میں ہونیوالی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے حوالے سے چیئرمین نیب اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے پر جانبداری کا لیبل لگا کر ان کی سخت سرزنش بھی کی گئی ہے اور اسی تناظر میں اعلیٰ سطح کی جے آئی ٹی تشکیل دے کر اس کے ذریعے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے کاروباری معاملات کی دوبارہ چھان بین کی ہدایت کی گئی ہے۔ پھر جس دوٹوک انداز میں جے آئی ٹی کے پیرامیٹرز متعین کرکے اسے ہر 2ہفتے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اس کی روشنی میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ آنیوالے مراحل وزیراعظم‘ ان کے اہل خانہ اور ان کی حکومت کے لیے سخت آزمائش والے مراحل ہوں گے جن میں سرخرو ہو کر نکلنے کے لیے انہیں قانونی‘ تحقیقاتی اور عدالتی محاذ پر اپنے ہاتھ صاف ہونے کے ٹھوس ثبوت پیش کرنا پڑینگے جبکہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کے بعد وزیراعظم کو پھر سپریم کورٹ اور اکثریتی فیصلہ کی فائنڈنگ کی بنیاد پر احتساب عدالت کے روبرو بھی ملزمان کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اس لیے وزیراعظم کے لیے یہ معاملاتِ سودوزیاں اس نوعیت کے ہرگز نہیں کہ ان پر جشن اور خوشیاں منانے کا اہتمام کیا جائے۔
اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ٹیم اپوزیشن کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے سے زیادہ قانونی جنگ کی تیاری کرے کیونکہ بادی النظر میں اس وقت وزیراعظم انتہائی کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں اور معاملہ ان کی کرسی بچانے سے بھی آگے نکل چکا ہے جس میں نااہلیت کی تلوار ان پر خطرناک انداز میں لٹکی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور اس فیصلے کی بنیاد پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کا عندیہ بہتری کی جانب مثبت قدم ہے اس لیے انہیں اپنی کابینہ کے ارکان اور فدایان کو بھی بہتری کی اسی راہ پر لگانا چاہیے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپوزیشن کیخلاف کسی بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے اجتناب کی ہدایت کرنی چاہیے۔ اسی طرح اٹارنی جنرل کو بھی سیاسی محاذآرائی کی اس فضا میں خود کو وزیراعظم کے حلقہ ارادت منداں میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ وہ کسی فرد یا خاندان کے نہیں بلکہ وفاق کے وکیل ہیں اور یہ ذمہ داری ان سے قطعی غیرجانبداری کا تقاضا کرتی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے تو پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کے لےے بہرصورت عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے حوالے سے وزیراعظم کے لیے پیدا ہونیوالی مشکل صورتحال سے فائدہ اٹھاناسمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ اپوزیشن کو ایسے معاملات میں ہی حکومت کو دباﺅ میں رکھنے کا نادر موقع ملتا ہے۔ اس تناظر میں اپوزیشن کے قائدین اگر وزیراعظم کے استعفیٰ اور حکومت مخالف تحریک کے لےے صف بندی کرکے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے کی تیاریوں میں مصروف ہیںجس کے لیے پیپلزپارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری‘ تحریک انصاف کے عمران خان اور دوسرے عہدیدار اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپوزیشن میں اتحاد و اتفاق پر زور دے رہے ہیں تویہ ایسا ہونا حیرت انگیز نہیں ہے بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کا صف بندی نہ کرنا حیرت انگیز بات ہوتی ۔ عمران خان اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں جبکہ اب انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں چیئرمین نیب کو ہٹوانے کے لیے ان کیخلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے باہمی ملاقات میں پاناما فیصلے کیخلاف عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی درخواست یا ریفرنس دائر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اب جبکہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو نوٹس بھی جاری کردیے ہیں جس کے باعث آئندہ ہفتے جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے وضع کردہ پیرامیٹرز پر تحقیقات شروع کےے جانے کا بھی امکان ہے، اس لیے اپوزیشن کو جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کرکے اس کیس میں اپنی جانب سے کوئی کمزور پہلو نہیں رہنے دینا چاہیے کیونکہ بنیادی طور پر یہ اپوزیشن ہی کا کیس ہے۔ اس کی اپوزیشن خود ہی پیروی نہیں کریگی تو اس میں ہونیوالے نقصان کا ملبہ کسی اور پر نہیں ڈال سکے گی، اس لیے اپوزیشن کو مثبت سوچ کے ساتھ سیاسی اور قانونی محاذوں پر اپنی موجودگی کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔ اس کیس میں حکومت اور حکمران خاندان کا تو سب کچھ داﺅ پر لگا ہوا ہے اس لیے اپوزیشن کی جانب سے یہی بہترین حکمت عملی ہوگی کہ وہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ایسا کوئی کمزور پہلو نہ چھوڑے جس سے حکمران خاندان کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہو۔ اگر اپوزیشن نے محض بلیم گیم اور اکھاڑ پچھاڑ کی پالیسی برقرار رکھی تو پھر سسٹم کی اصلاح اور کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کے لیے اس کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔امید کی جاتی ہے کہ اپوزیشن کے رہنما اس پہلو پر بھی غور کریں گے اور جے آئی ٹی کو آخری حد تک پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ کسی کو یہ کہنے کاموقع نہ ملے کہ جے آئی ٹی میں اپوزیشن تعاون کرتی تو عوام کو کرپٹ حکومت سے نجات مل سکتی تھی۔