میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پرامید رہیں، صحت مند رہیں

پرامید رہیں، صحت مند رہیں

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۵ مارچ ۲۰۲۲

شیئر کریں

دوستو،امریکی نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ پراُمید رہتے ہیں اور ہر مسئلے میں مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں، وہ نہ صرف دوسروں سے زیادہ صحت مند رہتے ہیں بلکہ ان کی عمر بھی قدرے طویل ہوتی ہے۔اگرچہ عام تاثر بھی یہی ہے کہ ’رجائیت پسند‘ یعنی ہر طرح کے حالات میں پرامید رہنے والوں کی صحت اچھی رہتی ہے لیکن اس بارے میں یہ پہلی باقاعدہ تحقیق ہے۔بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں نفسیاتی اور اعصابی ماہرین کی ایک ٹیم نے 233 رضاکاروں کا 22 سال تک مطالعہ کرنے کے بعد دریافت کیا ہے کہ مثبت سوچ سے بلڈ پریشر معمول پر رہنے کے علاوہ امیون سسٹم (جسم کو بیماریوں سے بچانے والا قدرتی نظام) بھی مضبوط رہتا ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ رجائیت پسند افراد بھی اپنی روزمرہ زندگی میں دوسرے لوگوں ہی کی طرح مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور ان کا وقتی ردِعمل بھی دوسروں جیسا ہی ہوتا ہے۔اس کے باوجود، رجائیت پسند فوراً ہی مسئلہ حل کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور وقتی ردِعمل پر ان کا فطری مزاج غالب آجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ماہرین نے ’’مثبت تاثر‘‘ کا نام دیا ہے۔مثبت تاثر کے نتیجے میں ان کا فشارِ خون (بلڈ پریشر) اور جسم کے مختلف حصوں کو خون کی فراہمی بھی معمول پر رہتی ہے؛ اور ان کا امیون سسٹم بھی صحیح طرح کام کرتا رہتا ہے۔ماہرین کی یہی ٹیم 2019 میں یہ دریافت کرچکی ہے کہ رجائیت پسند افراد کی عمر، یاسیت پسند (ہر وقت مایوسی کا شکار رہنے والوں) کے مقابلے میں 11 تا 15 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ نئی تحقیق سے اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہوئی ہے۔’’رجائیت پسندی اور اچھی صحت میں تعلق اب اچھی طرح ہمارے سامنے آچکا ہے،‘‘ماہرین کا کہنا ہے کہ ۔۔ ’’لیکن لمبی عمر کے معاملے میں یہ طے ہونا باقی ہے کہ آیا رجائیت پسندی اور طویل العمری میں صرف کوئی تعلق ہے یا پھر رجائیت پسندی کی وجہ سے عمر لمبی ہوتی ہے۔‘‘ریسرچ جرنل ’’جیرونٹولوجی سیریز بی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق نیو میکسیکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ صحتِ عامہ کے پروفیسر، جگدیش کھوبچندانی نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا: ’’اکیسویں صدی میں مثبت سوچ اور رجائیت پسندی کے بارے میں کئی شہادتیں مل چکی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ امیون سسٹم، دماغی افعال اور جسمانی صحت پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔آج ہم جان چکے ہیں کہ بہت زیادہ اعصابی تناؤ اور منفی ذہنیت سے ہمارے جسم میں نیورو اینڈوکرائن اور امنیاتی ردِعمل (امیون رسپانس) متاثر ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے بیمار پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ بیمار پڑنے پر دوبارہ صحت یابی کا عمل بھی سست رہتا ہے۔۔
امریکی تحقیق دانوں کی تازہ تحقیق سے کم سے کم ہمیں تو یہ اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ کیوں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتے۔۔ اکثریت ادھیڑ عمری میں ہی کسی نہ کسی خطرناک مرض کا شکار ہوکر ابدی نیند سوجاتے ہیں۔۔کیوں کہ میڈیا میں کام کرنے والوں کی اکثریت جنہیں معاشرے میں ’’صحافی‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے، ہمیشہ منفی سوچ ہی رکھتے ہیں۔۔حالانکہ انہیں اپنی سوچ شیخ صاحب کے گھر آئے اس مہمان کی طرح رکھنی چاہیئے،جو بہت دور سے آیا تھا۔۔مہمان نے آتے ہی دہشت ناک خبر سنائی کہ چار پانچ دن قیام کرے گا، شیخ صاحب بھاگ کے بازار گئے اور بہت زیادہ عمر کی بھینس کا ایک پاؤ گوشت لے آئے، آتے ہی بلند آواز سے بیگم کو بولے ،مہمان کی خاطر میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، آج بھنڈی گوشت بناؤ، بھنڈی گوشت تیار ہو گیا، لیکن گوشت بہت سخت تھا مہمان سے کھایا نہیں گیا، اس نے بھنڈی کھا لی،، اگلا دن ہوا، تو شیخ صاحب بولے۔۔ آج آلو گوشت بناؤ مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، آلو گوشت پک گیا، لیکن گوشت پھر بھی سخت تھا، مہمان نے آلو کھا لیے، اور گوشت ویسے کا ویسا رہا۔۔ تیسرے دن، دال گوشت، چوتھے دن پالک گوشت،، پانچواں دن ہوا تو شیخ صاحب بولے۔۔ بیگم آج مہمان کا آخری دن ہے، آج کریلے گوشت بنا لو،، مہمان بے چارہ بھی تنگ آ چکا تھا، غصے سے بولا گوشت کھا کھا کر میں تنگ آ چکا ہوں، آپ خالی کریلے ہی پکا لو۔۔
وہ جو بیویوں کے بارے میں ہمیشہ پرامید رہتے ہیں اور مثبت سوچ رکھتے ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ۔۔کہتے ہیں،جو بیوی اپنے شوہر کی ساری غلطیاں معاف کر دیتی ہے وہ بیوی صرف ڈرامے کی آخری قسط میں پائی جاتی ہے۔اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو غلطی کرنے پر شوہر کو معاف کر دیتی ہے۔اگر بیوی سے کوئی غلطی ہو جائے تو غلطی ہمیشہ غلطی کی ہی ہوتی ہے۔شادی کے بعد ہمیں سمجھ آئی کہ ہیرو ہیروین کے ملتے ہی فلم ختم کیوں کر دیتے ہیں۔سیانے کہتے ہیں،اگر ساری بددعائیں قبول ہوتی،تو آج پاکستان میں نہ تو کوئی ساس زندہ ہوتی اور نہ ہی کوئی بہو۔۔اپنی بیوی اگر زیادہ سوالات کرے تو مردوں کو فوری غصہ آ جاتا ہے مگر کسی دوسرے کی بیوی پوچھتی رہے تو علم اور فضل کے دریا بہاتے رہتے ہیں۔۔شادی شدہ مرد ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اسے دودھ، دہی، سبزیوں اور پیمپرز کے ریٹ کا پتہ ہوتا ہے۔شکر ہے شوہر عام طور پر خوبصورت ہوتے ہیں ورنہ سوچیں اس مہنگائی میں دو لوگوں کا بیوٹی پارلر کا خرچا کتنا بھاری پڑتا۔یہ بات بھی اپنی جگہ سو فیصد حقیقت ہے کہ دکھ ، حالات اور بیوٹی پارلر انسان کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ہمارے پیارے دوست کو صرف ایک ہی شکایت ہے کہ۔۔ لوگ پتہ نہیں کیسے پرفیکٹ لائف گزار لیتے ہیں ہمارے تو ناشتے میں کبھی پراٹھا پہلے ختم ہو جاتا ہے اور کبھی انڈا۔۔پیارے دوست ہمیشہ ہمیں ایک ہی بات سمجھاتے آئے ہیں کہ ، اپنا کریکٹر ایسا رکھو کہ شادی والے دن تایا جی آپ سے کہیں۔۔ بیٹا جی لیڈیز میں جا کر کھانا شروع کرواؤ۔۔
معروف رائٹر اور سفرنگارمستنصر حسین تارڑ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔ایک سردار جی نہایت اہتمام سے چائے پی رہے تھے۔ وہ ایک گھونٹ بھرنے کے بعد چائے کو ایک چمچے سے خُوب ہلاتے، چمچہ چائے میں پھیر کر ایک گھونٹ بھرتے اور پھر مسکرانے لگتے۔ وہ یہ عمل بار بار دُہراتے رہے۔ہر گھونٹ کے بعد چائے کو چمچے سے ہِلاتے، ایک اور گھونٹ بھرتے اور مُسکرانے لگتے۔ نزدیک بیٹھے ایک صاحب نے پُوچھا کہ، ’’سردار جی آپ ہر بار چائے کو چمچے سے ہِلا کر گھونٹ بھرنے کے بعد مُسکراتے کیوں ہیں؟‘‘ ۔۔تو سردار جی نے کہا کہ، ’’ایک بات آج ثابت ہو گئی ہے، چائے میں اگر چینی نہ ڈالو تو لاکھ اُسے چمچے سے ہِلاؤ وہ کبھی بھی میٹھی نہیں ہو گی‘‘۔۔۔مستنصرحسین تارڑ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔اگر نیک اعمال کی چینی آپ کی حیات میں نہ ہو توآپ لاکھ عبادتیں کریں، تسبیح پھیریں، فیصلہ تو اعمال کی چینی سے ہو گا ورنہ روزِ حشر آپ کی اگلی پُوری زندگی پھیکی ہی رہے گی۔ شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ کے اکثر شعروں میں یہی پیغام ہے، ’’کہ اگر عمل مفقُودہے تو تم پھیکے کے پھیکے رہو گے، کبھی میٹھے نہ ہو گے۔‘‘
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دوسرے کیا سوچتے ہیں،آپ اس بارے میں جتنا کم سوچیں اتنا ہی خوش رہیں گے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں