میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کا فیصلہ اس طرح کب تک کام چلایا جائے گا

فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کا فیصلہ اس طرح کب تک کام چلایا جائے گا

منتظم
هفته, ۲۵ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

سینیٹ نے گزشتہ رو زآرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا جبکہ فوجی عدالتوں کی مدت میں2 سالہ توسیع کے لیے 28ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری28 مارچ تک کے لیے موخر کردی گئی۔سینیٹ اجلاس میں دونوں بل وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے پیش کیے گئے، جن پر جمعیت علمااسلام (جے یو آئی ف) کے سینیٹر مولانا عطاالرحمن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے جہانزیب جمال نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا.سینیٹ کے 104 میں سے صرف 3 سینیٹرز کی مخالفت اور کثرت رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو رائے شماری کے بغیر ہی منظور کرلیا گیا، تاہم 28ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کورم پورا نہ ہونے کے سبب مؤخر کردی گئی۔ فوجی عدالتوں میں یہ توسیع اسی روز یعنی7 جنوری 2017 سے تصور کی جائے گی جب ان کی سابقہ مدت ختم ہوئی تھی۔ اس سے قبل گزشتہ روز قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں میں 2 سالہ توسیع کے لیے 28 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بل کی حمایت میں 255 ارکان نے ووٹ دیئے تھے جبکہ صرف 4 ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی۔
قانون کا درجہ حاصل کرنے کے لیے اس بل کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کی منظوری درکار ہے۔28ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک بھر میں فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید 2 سال کی توسیع ہوجائے گی جس کی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے متعلق سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔فوجی عدالتیں 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے قائم کی گئی تھیں۔ فوجی عدلتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق ترمیمی بل میں حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے4 تجاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اِس کو ان الزامات کے بارے میں بھی بتانا شامل ہے جن الزامات کی وجہ سے اسے گرفتار کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ملزم کو پسند کا وکیل کرنے کا حق ہوگا جبکہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی کے دوران قانون شہادت پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں کے قانون سے پاکستان کو محفوظ بنانے کی باتیں محض بہلاوا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انھوں نے اس عرصے کے دوران کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی جس سے موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمرنے بجاطورپر یہ سوال اٹھایاہے کہ اگر فوجی عدالتیں بھی ناکام ہوگئیں تو پھر لوگ کہاں جائیں گے۔ ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چاہئے اور اس سوال کاموثراور مدلل جواب دینے کی کوشش کرنی چاہئے،کیونکہ خود حکومت اور فوجی قیادت بھی یہ مانتی ہے کہ فوجی عدالتیں مسئلہ کامستقل حل نہیں ہیں بلکہ یہ عارضی انتظام اورفوجی عدالتوں کے قیام کا بنیادی مقصد دہشت گردی ، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کے ملزمان کی قانو نی موشگافیوں سے فائدہ اٹھا کربچ نکلنے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔
فوجی عدالتوں کے حوالے سے ناقدین کا یہ اعتراض اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ حکومت نے 2سال ضائع کئے اور ان دوبرسوں کے دوران انھوں نے ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے اور ایسے مقدمات کے جلد از جلد تصفیے کو یقینی بنانے کے حوالے سے کوئی ایسی جامع پالیسی نہیں بنائی جس سے موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا۔اس حوالے سے سید نوید قمر کایہ کہنا بھی درست ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنائی گئیں لیکن حکومت نے نہ تو ان عدالتوں کے ججز کو تحفظ فراہم کیا اور نہ ہی گواہوں کو ،جس کی وجہ سے یہ عدالتیں اس طرح مقدمات کو نہیں نمٹا سکیں جس طرح کی امید کی جارہی تھی۔
ارباب حکومت کو اس پر غور کرناچاہئے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کے بعد کیا وہ اس عرصے کے دوران عدالتی اصلاحات لاسکے گی یا وہ اس معاملے کو الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ٹالنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس نے سوچ رکھاہے کہ الیکشن کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت اس حوالے سے جوابدہ ہوگی۔
جہاں تک فوجی عدالتوں کا سوال ہے تو اس ضمن میں یہ اعتراض اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ملک میں سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں میں ہائیکورٹس کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کاقیام دراصل اپنے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کے مترادف ہے، یہ درست ہے کہ دہشت گردوں کوکچلنے کے لیے ان کے خلاف تیزی سے کارروائی کرکے سخت سزائیں دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے دوسرے لوگ عبرت پکڑیں گے، لیکن یہ کام سپریم کورٹس ، ہائیکورٹس اور ماتحت عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں اضافہ اور مقدمات کی سماعت کے طریقہ کار میں ججوں کی مشاورت سے اصلاحات اوردہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں اورگواہوں اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کامناسب اور قابل اعتماد انتظام کرکے بھی کیاجاسکتاہے ، اس طرح نہ صرف یہ کہ فوجی افسران کو سول مقدمات کی سماعت میں الجھانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی ملک دشمنوں کو ملک کے عدالتی نظام پر انگلی اٹھانے کا موقع ملے گا۔ فوجی عدالتوں پر اعتراض کرنے والے اس اعتبار سے اپنے اعتراضات میں حق بجانب ہیں کہ جس طرح انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف کاخون کرنے کے مترادف ہے اسی طرح انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے اور ملزمان کو اپنی صفائی کاپورا موقع دئے بغیر محض استغاثہ کے الزامات سن کر یا صفائی کا سرسری موقع دے کرسزا سنانا بھی انصاف کی فراہمی کامناسب طریقہ نہیں ہے۔تاہم ملک کو اس وقت جس طرح کے غیر معمولی خطرناک حالات کاسامنا ہے اس کے پیش نظرہم فی الوقت عدالتی نظام میں اصلاحات کا انتظار نہیں کرسکتے ، یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام بڑی پارٹیاں فوجی عدالتوں کے قیام پر رضامند ہوگئی ہیں، اب یہ حکومت کاکام ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کی موجودہ میعاد ختم ہونے سے قبل ہی عدالتی نظام میں اس طرح کی اصلاحات کو یقینی بنائیں کہ انصاف میں تاخیر کی شکایت بھی ختم ہوجائے اور انصاف صحیح معنوں میں ہوتا بھی نظر آئے۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے اور اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور معروف قانون دانوں سے بھی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں