آئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ، تو بات ختم ،سپریم کورٹ
شیئر کریں
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خفیہ یا اوپن ووٹنگ کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، اگرآئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہوگی تو بات ختم، پارلیمان کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے،ریاستی اداروں کو اپنی حدود میں رہ کرکرنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے۔ اگرآئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہوگی تو بات ختم۔ ریاست کے ہر ادارے نے اپنا کام حدود میں رہ کرکرنا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس میں کہا کہ قانون میں کبھی خلا نہیں آتا۔ کوئی قانون ختم ہو تو اس سے پہلے والا بحال ہوجاتا ہے۔ انفرادی طور پر کیس میں فریق افراد کو کل سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خفیہ ووٹنگ یا اوپن بیلٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، پارلیمان کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ اس سے قبل بیرسٹرصلاح الدین نے اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر عدالت میں دلائل دیے کہ آج تک دائر ہونے والے تمام ریفرنسز آئینی بحران پر تھے۔ عدالت نے قرار دیا بنگلا دیش کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے2019ٰمیں بدنام زمانہ فیصلہ سنایا۔ بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ سے بابری مسجد پر رائے مانگی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دینے سے انکار کیا تھا۔ بیرسٹر صلاح الدین نے مزید کہا کہ اسپیکر کے الیکشن کون کرائے گا آئین میں کہیں نہیں لکھا۔ اسپیکر الیکشن کی تفصیل رولز میں ہے۔ اسپیکر کا الیکشن آئین کے تحت ہوسکتا ہے توسینیٹ کا کیوں نہیں۔آئین میں بیلٹ پیپرز کا ذکر کبھی نہیں ہوتا۔ قانون یا رولز میں ہی تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ کیا الیکشن ایکٹ2017 ختم ہونے سے سینیٹ انتخابات نہیں ہوں گے؟ رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ اپنا ووٹ ظاہر کرنے پر کسی کو بھی مجبور نہیں کیا جاسکتا، سینیٹ الیکشن عارضی قانون سازی کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ نے سینیٹ اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔