میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محفوظ یار خان کی باتیں کافی حد تک درست ہیں، ارم عظیم فاروقی

محفوظ یار خان کی باتیں کافی حد تک درست ہیں، ارم عظیم فاروقی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۵ فروری ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ: شعیب مختار) سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے کی حمایت کرتی ہوں، سیاسی جماعتوں کو اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے اراکین اسمبلی پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے، محفوظ یار خان کی باتیں کافی حد تک درست ہیں 2018 میں سینیٹ کا ووٹ ان لوگوں نے فروخت کیا جو بکنے کے لیے تیار تھے۔امریکا میں مقیم متحدہ قومی موومنٹ کی سابق رکن سندھ اسمبلی ارم عظیم فاروقی کا روزنامہ جرأت سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کو سینیٹ کے لیے مخصوص امیدواروں کا انتخاب کرنے کے بجائے پارٹی کے ارکان کو ووٹ ڈالنے سے متعلق آزادانہ حق دینا چاہیے، یہ جو زبردستی کی پارٹی کی پالیسی ہوتی ہیں کہ وہ ٹیکنوکریٹ ہے، پارٹی کا وفادار ہے، شہید کا بھائی ہے ایسے لوگوں کو سینیٹ میں نہیں آ نا چاہیے۔متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی کے 2018کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا حصہ بننے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے اپنا ووٹ فروخت کیا وہ اس سوچ سے کیا ان کو پارٹی میں نہیں رہنا تھا یا پھر ان کو پیسوں کی ضرورت تھی وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ پارٹی لیڈر نہیں ہے تو ہم کیوں بات مانیں، ان لوگوں کی اس میں زیادہ تر وہ شامل تھے جو پی ایس پی میں چلے گئے تھے جنہوں نے ووٹ ان کو نہیں ڈالا ’’اب وہ پیسوں سے ڈالا یا نہیں ڈالا‘‘ یہ تو ان کو ہی معلوم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2018کے سینیٹ انتخابات سے قبل پارٹی سے علیحدگی اختیار کر چکی تھیں، اس ضمن میں مجھے الیکشن کمیشن کی جانب سے سمن بھی جاری کیا گیا تھا جس پرمیں نے انہیں پارٹی سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھنے سے متعلق آ گاہ کیا تھا، بعد ازاں مجھے اسمبلی کی تین ماہ کی مدت مکمل کرنے کی تلقین کی گئی تھی جس کے بعد میں دوبارہ سے اسمبلی میں جا کر بیٹھ گئی تھی، یہ میرے لیے بڑی تلخ صورتحال تھی۔ ان کہنا تھا کہ جب سینیٹ الیکشن ہوئے تو ہر پارٹی نے مجھ سے رابطے کیے کہ ہمارے امیدوار کو سپورٹ کریں۔ میری پارٹی کی جانب سے بھی رابطہ کیا گیا اور وہ لوگ جو مجھے پسند نہیں کرتے تھے، انہوں نے میرے رابطوں میں رہنے والے رہنماؤں سے میرا ووٹ مانگنے کی کوشش کی۔یہ ایک عجیب قسم کاسلسلہ ہے، عمومی طور پر جو سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں ان امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں جو پیسے دیکرپارٹی کی سیٹ لیتے ہیں یا پھر وہ پسندیدہ ہوتے ہیں اور پھر اراکین اسمبلی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ان کے نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ ڈالیں خواہ وہ اس نشست کے قابل ہوں یا نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں