لاہور میں دہشت گردی کا ایک اور واقعہ… عوام صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں!
شیئر کریں
دہشت گردوں نے جمعرات کو ایک دفعہ پھر لاہور میں ایک زیر تعمیرعمارت میں دھماکا کرکے اس شہر میں اپنی موجودگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس حکام کی پہنچ سے دور ہونے کا ثبوت دے دیا، دہشت گردوں نے یہ دھماکا جس میں اطلاعات کے مطابق 8سے زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوئے پاک فوج کی جانب سے ملک بھر میں آپریشن ’ردُ الفساد‘ شروع کرنے کے اعلان اور پنجاب میں بھی امن وامان کے قیام کے حوالے سے پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کو اختیارات دینے کے اعلان کے فوری بعد کیاہے اور اس طرح رینجرز اور پولیس کی طاقت کو چیلنج کیا گیاہے ۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آپریشن ردُالفساد شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکورٹی اجلاس میں کیا گیاہے۔ اس کا مقصد ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا، بارودی مواد کو قبضے میں لینا اور ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا بتایا گیاہے۔فیصلے کے مطابق آپریشن میں فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور سیکیورٹی ادارے شریک ہوں گے۔
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ شروع کیا تھا۔شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا دیا تھا۔بعد ازاں خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور ‘خیبر ٹو’ کے تحت سیکورٹی فورسز نے اپنی کارروائیاں مزید تیز کردی تھی۔جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مزید تیزی لائی گئی۔قبل ازیں 2009 میں پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں کمانڈر بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھااوراسے ‘آپریشن راہ نجات’ کا نام دیا گیاتھا۔اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈ کواٹرز پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد کیاگیاتھا۔آپریشن کے اعلان کے بعد ایجنسی کے دور دراز علاقوں سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کی اور وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل میں پناہ گزین ہوئے۔
دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں ماند پڑ گئی تھیں اور عوام یک گونہ سکون محسوس کرنے لگے تھے لیکن یہ سکو ن دیرپا ثابت نہیں ہوسکا اور دہشت گردوں نے رواں ماہ ایک دفعہ پھر اپنی قوت کامظاہر ہ شروع کردیا جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ رواں ماہ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 13 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ ‘جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔ 13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بھی ’جماعت الاحرار‘نے قبول کی تھی۔ 15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ 16 فروری کو سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 80 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ 21 فروری کو خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ضلع کچہری پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 3 خود کش حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا گیا۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم گروپ جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔ خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو ہی بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔
دہشت گردوں کی تازہ ترین کارروائیاں اگرچہ پریشان کن ہیں اور ان سے ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے انٹیلی جنس اہلکار ابھی تک دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا پوری طرح پتہ چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور دہشت گرد پے درپے وارداتیں کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو عوام کی نظر وںمیں گرانے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کے سامنے بے بس ہیں، لیکن اس حوالے سے یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ دہشت گردوں کی اس طرح کی کارروائیاںچراغ آخر شب کی حیثیت رکھتی ہیں اور جس طرح چراغ گل ہونے سے قبل ایک دفعہ بھڑکتاہے، اسی طرح دہشت گرد بھی اپنی آخری قوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ا س موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام صبر کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں پاک فوج، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرکے یہ ثابت کردیں کہ دہشت گردی کی اس طرح کی وارداتیں ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتیں اور وہ آخری دہشت گرد کے خاتمے اور دہشت گردی کے اس ناسور کے پاک سرزمین سے مکمل خاتمے تک پاک فوج اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہیں گے۔