ڈسٹرکٹ ملیر تعلیمی اداروں کی زمین پر قبضے کیلئے لینڈ مافیا بے قابو
شیئر کریں
( رپورٹ: جوہر مجید شاہ ) ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع ملیر کے لینڈ گریبرز کے خلاف جاری سخت احکامات و ہدایات کے باوجود ڈسٹرکٹ ملیر میں لینڈ گریبرز بے قابو سرکاری غیرسرکاری ، رفاحی ، کھیل کے میدان ، ایمینیٹی پلاٹس ، حتیٰ کے تعلیمی اداروں کیلئے مختص سرکاری اراضی بھی قبضہ مافیا کے نشانے پر قائد آباد ملیر برج سے متصل گورنمنٹ ڈگری سائنس آرٹس ،کامرس ، بوائز ،گرلز کالج کیلئے مختص سرکاری اراضی پر بااثر لینڈ مافیا قابض کروڑوں ، اربوں کی سرکاری اراضی کو ٹھکانے لگانے کیلئے لینڈ مافیا نے میدان سنبھال لیا۔ یاد رہے مزکورہ زمین پر اس سے قبل بھی لینڈ گریبرز نے ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی تھی، مگر علاقہ مکینوں کے شدید احتجاج اور ایس ایس پی ملیر کی ذاتی توجہ اور متعلقہ مختار کار کی جانب سے قانونی کارروائی اور دباؤ کے نتیجے میں قبضہ مافیا اڑن چھو ہوگئے تھے، بعد ازاںایک دوسرا لینڈ گریبرز کا گروپ جو سیاسی سازو سامان و حکومتی حلقوں و طاقتور پرچی کا حامل تھا مزکورہ کالج کیلئے مختص لگ بھگ ایک ایکڑ سرکاری اراضی کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ادھر انتہائی بااعتماد و باوثوق اندرونی ادارتی، علاقائی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق نئے قبضہ گروپ کی جانب سے کھلم کھلا اس قبضے کے پیچھے جو نام لیا جارہا ہے وہ وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کا لیا جارہا ہے۔ مزکورہ اراضی 2009 ، 2010 میں سابق ایم پی اے حاجی مظفر علی شجرہ نے ڈسٹرکٹ ملیر اور قائد آباد سے متصل مکینوں کے دیرینہ مطالبہ پر کالج کیلئے مختص کی تھی۔ ملیر ندی N-5ہائی وے پل سے متصل نزد ریور ویلی کیساتھ3 ایکڑ زمین لینڈ یوٹیلائزیشن لیٹر نمبر 01،152،11،SO،VIII،118،12مورخہ 21 ،2، 2012 کو 3 ایکڑ سرکاری زمین کی منظوری کروا کر اہل ملیر و قائد آباد و متصل علاقوں کے مکینوں کو بطور تحفہ پیش کیا۔ اس ضمن میں یاد رہے کہ مورخہ 17 ، 03 ، 2013 کو اس زمین پر لینڈ مافیا نے قبضہ کر لیا تھا۔ شدید عوامی ردعمل کے بعد مورخہ 17،03،2013 کو ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کی ذاتی دلچسپی اور مافیا کے خلاف قانون کی رٹ کو قائم کرنے اور علاقہ مکینوں کی درخواست پر ایکشن لیا گیا، جبکہ دوسری جانب مختیار کار ابراہیم حیدری کی مدعیت میں تھانہ اینٹی انکروچمنٹ میں ایف آئی آر 03 ، 2013 درج کی گئی، اس کے بعد لینڈ گریبرز کے ایک دوسرے گروپ نے مذکورہ کالج کی زمین پر قبضہ کر لیا۔ ادھر علاقائی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مزکورہ لینڈ گریبرز کے ڈان، سرغنہ کو سب ڈویژن ابراہیم حیدری کے مختیار کار نے نمائشی میچ کھیلتے ہوئے پہلے قانون کے شکنجے میں پھنسایا یعنی گرفتار ، پھر گرین سگنل دیتے آزاد کروایا مشترکہ ساز باز اور ملی بھگت سے بھاری رقوم بطور نذرانہ لاکھوں، کروڑوں وصول کرتے ہوئے سرکاری خزانے کو لاکھوں کروڑوں کا چونا لگا دیا۔ نیز ملک و قوم کا مستقبل اور تعلیمی ادارے کالج کیلئے مختص زمین کو بھی نہ بخشا اور کالج کی 2 ایکڑ زمین ٹھکانے لگادی۔ مزکورہ زمین پر ایک جعلی حمل گوٹھ بنا دیا گیا، جو تاحال قائم ہے، اب اس کالج کی بچی کھچی1ایکڑ زمین اور اس سے متصل واٹر بورڈ کی مین لائن، واضح رہے یہ لائن ملیر کینٹ پاک آرمی کی 72 انچ کی واٹر لائن ہے، اس پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور اس میں ملوث افراد کھلم کھلا نام وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا استعمال کررہے ہیں۔ ملیر ریور برج بننے کے بعد قائد آباد انٹر چینج مزکورہ مقام کے قریب بننے سے اس جگہ زمین کی قیمت سونے کے بھاؤ ہوجائے گی، اس لیے لینڈ مافیا نے ملیر ریور برج کے افتتاح کے فوری بعد قبضہ کرنے کی نیت سے کالج کیلئے مختص جگہ کی بھاری مشینری سے صفائی شروع کروا کے چار دیواری کا کام شروع کرادیا ہے۔ یہ زمین سرکاری ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ سمیت پورے پاکستان میں سرکاری زمین کو الاٹ کرنے پر پابندی ہے، مگر کالج کیلئے مختص بچی کچھی اس زمین پر لینڈ مافیا کے قبضہ پر متعلقہ اداروں اور منتخب نمائندوں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سمیت تمام تحقیقاتی اداروں سے اٹھائے گئے حلف اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔