میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گھرکا وزیراعظم۔۔(علی عمران جونیئر)

گھرکا وزیراعظم۔۔(علی عمران جونیئر)

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۴ نومبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

سوچنے سمجھنے،تجزیہ کرنے، مشاہدے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے لیکن بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو درست وقت پر درست فیصلہ لیتے ہیں،انسان اور جانوروں کے درمیان جو فرق رکھا گیا ہے وہ صرف اور صرف ’’عقل‘‘ کا رکھا گیا ہے، جو انسان عقل سے کام لیتا ہے عقل مند کہلاتا ہے اور جو شادی کرلیتا ہے اسے عقل’’بند‘‘ کہتے ہیں۔ شادی کے بعد انسان عقل کا ہی نہیں درحقیقت اندھا ہوجاتا ہے، اسی لیے وہ اتنی باتیں نوٹ نہیں کرسکتا جتنا شادی شدہ حضرات کی ــ’’زوجہ ماجدہ‘‘ کرلیتی ہیں۔کسی بھی تقریب سے گھر واپسی پر بیگمات ہی شوہروں کو دوران گفتگو باربار کہہ رہی ہوتی ہیں، آپ نے نوٹ کیا، آپ نے فلاں بات نوٹ کی، آپ نے اس پوائنٹ کو نوٹ کیا۔۔شوہر بے چارے کی ساری توجہ سلامی میں دیئے جانے والے ’’ نوٹ‘‘ پر ہوتی ہے،کیونکہ وہ نوٹ اس کی جیب سے گیا ہوتا ہے۔۔ویسے یہ بات بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ شوہر حضرات بھی اس وقت خود کو گھر کا وزیراعظم محسوس کرنے لگتے ہیں،جب ان کے ہاتھ میں کچھ دیر کے لیے ٹی وی کا ریموٹ دے دیا جائے۔۔

کہتے ہیں کہ سونے کے دوران خراٹے لینا یا خراٹے مارنا ایک بیماری ہے، ہمارے ایک دوست کے تو خراٹے اس قدر زوردار ہوتے ہیں کہ وہ کبھی کبھار اپنے ہی خراٹوں کی آواز سے خود ہی سوتے سے اٹھ جاتے ہیں اور پھر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد ہلکا سا مسکراتے ہیں ،پھر سوجاتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں ان کے خراٹے اسٹارٹ ہوجاتے ہیں۔۔ تو ہم یہ بتارہے تھے کہ خراٹے مارنا ایک بیماری ہے لیکن خراٹے لینے والوں کو ایک اور بیماری بھی بہت شدید قسم کی ہوتی ہے، وہ سب سے پہلے سوبھی جاتا ہے۔۔ماچس کی تیلی تو آپ سب نے ہی دیکھی ہوگی؟ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ ماچس کی تیلی میں سر تو ہوتا ہے لیکن دماغ نہیں ہوتا،اسی لیے ذرا سی رگڑ سے بھڑک اٹھتی ہے۔۔اس کا انجام بھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا لیکن کبھی نوٹ نہیں کیا ہوگا،پھر وہ تیلی اپنی ہی آگ میں جل کر خاکستر ہوجاتی ہے۔حاسد کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔اسی لیے اللہ پاک نے قرآن پاک میں حاسدوں اور حسد سے بچنے کی سختی سے تاکید کی ہے۔۔

کہتے ہیں کہ مینڈک کو چاہے سونے کی بنی کرسی پرہی بٹھا دیں پر وہ چھلانگ لگا کر واپس دلدل میں ہی جانا پسند کرتا ہے۔۔اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب نوٹ کیجئے گا کہ کچھ انسان مینڈک کی طرح ہوتے ہیں ان کو آپ جتنی مرضی عزت دیں، کتنا ہی شاندار حسن سلوک کریںلیکن وہ اپنے اخلاق،سلوک اور برتاؤسے خود کو کم ظرف ثابت کرہی دیتا ہے۔۔آپ نے شاید یہ بات بھی کبھی نوٹ نہ کی ہو کہ آج کل تو دنیا بھی اسی کی خیریت پوچھتی ہے جن کے حالات ٹھیک ہوں، جو تکلیف میں ہوتے ہیں ان کے تو موبائیل نمبر تک کھو جاتے ہیں۔۔آپ کبھی ہمارے کہنے سے یہ بات بھی نوٹ کیجئے گا کہ ہمیشہ آلو۔ ۔ پیاز ۔ ۔ ۔ مولی اورگنا سستا ہو جاتا ہے کیوںکہ یہ غریب کسان کا ہے جب کہ ادویات، سیمنٹ، سریا،کھاد سستے نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ سرمایہ دار اور سیاست دانوں کے ہیں۔۔یہ بات بھی آپ نے لازمی کبھی نہ کبھی تو نوٹ کی ہی ہوگی کہ جنازے میں شامل ہونے کے لیے لوگ دوسرے ممالک سے، سات سمندرپار سے آجاتے ہیں جب کہ فرض نماز کے لیے قریب کی مسجد میں جانا انہیں بہت مشکل لگتا ہے۔۔

پولیس اہلکار نے ایک صاحب کو نشے کے الزام میں پکڑ کر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تو مجسٹریٹ نے پوچھا۔۔تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ صاحب نشے میں تھے؟۔۔پولیس والے نے کہا۔۔سر یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کرائے کے سلسلے میںجھگڑا کر رہے تھے۔۔مجسٹریٹ نے پولیس اہلکار کی بات سن کراعتراض اٹھایا کہ۔۔لیکن اس سے تو یہ ثابت نہیںہوتا ہے کہ یہ نشے میں تھے۔۔پولیس اہلکار بہت معصومیت سے بولا۔۔لیکن سر۔وہاں نہ تو کوئی ٹیکسی تھی اور نہ ہی ٹیکسی ڈرائیور۔۔۔اسی طرح سے ایک دیہاتی پہلی بار ایک فائیواسٹار ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے کی نیت سے گھسا،ویٹر نے اس کے سامنے مینیوکارڈ رکھ دیا، دیہاتی سے حیرت والے انداز میں پوچھا، یہ کس کا خط ہے؟ ویٹر نے بتایا، سر یہ مینیوہے، دیہاتی نے کہا، یہ مینیو کیا ہوتا ہے؟ ویٹر سمجھ گیا کہ کسٹمر پینڈو ہے،اس نے بتایا کہ اس میں تمام کھانوں کی فہرست ہے ،آپ کیا کھانا پسند کریں گے؟ دیہاتی نے کہا، جلدی سے مرغی لے آ۔۔ویٹر نے عادت کے مطابق پوچھ ہی لیا، سر چائینیز، انڈین، پاکستانی، فرنچ کونسا؟ دیہاتی بہت سادگی سے بولا۔۔ جیڑا مرضی لے آ، مے کیڑابے کہ اودے نال گلاں کرنیا نے۔۔۔

کچھ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ تم بدل گئے ہو کبھی کبھی دل کرتا اْنہیں ایک لگا کے بتاؤں کہ تمہارے رویوں نے بدلہ ہے ورنہ ہمارے اندر کونسا سافٹ وئیر تھا جو اپڈیٹ ہو گیا۔۔جن باتوں پر لوگ جھگڑا کر کے منوں مٹی تلے جا کر سو جاتے ہیں،اگر انہی باتوں پر ذرا سی صلح کی مٹی ڈال دیتے تو دنیا میں ہی پرسکون سے رہا جا سکتا ہے۔ جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو فیصلے نہیںفاصلے ہونے لگتے ہیں۔۔ہمارا مذہب اسلام ہے جسے سلامتی کا مذہب بھی کہاجاتا ہے، ہمارا پیارا مذہب تو ہمیں ’’مُردے‘‘ کو بھی سلام کرنے کی تعلیم دیتا ہے لیکن پتہ نہیں ہم میں یہ انا، ضد، اکڑ کیوں آگئی ہے کہ زندہ لوگوں کو بھی سلام کے قابل نہیں سمجھتے۔اگر سلام کر بھی لیا تو صرف مطلب کے لیے۔۔ یتیم خانوں میں بچے غریبوں کے پلتے ہیں اور اولڈ ہومز میں بزرگ امیروں کے ملتے ہیں۔۔ عورت کا بھی مرد کی زندگی میں اتنا ہے عمل دخل ہونا چاہیے جتنا کسی پکوان میں نمک کا۔زیادہ نمک بھی دونوں کی زندگی زہر بنا دیتا ہے۔ ۔ باباجی نے بھی کچھ باتیں نوٹ کررکھی ہیں کہتے ہیں، گھریلو استعمال کی کوئی بھی خراب چیز ٹھیک کرنے کے بجائے پہلے اس بندے کی تلاش کی جاتی ہے جس نے آخری بار وہ چیز استعمال کی تھی۔۔ سب کو خوش رکھنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ مینڈکوں کو تولنا، ایک کو بٹھاؤ تو دوسرا پھدک پڑتا ہے۔۔بیویوں کی الزام تراشیاں بھی کبھی نوٹ نہیں کی ہوں گی آپ لوگوں نے، الزام تراشی کی انتہادیکھئے، آپ یہ آٹا کہاں سے اٹھالائے ہو، ساری روٹیاں جل گئیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ زیادہ عقل مند بننے سے عقل زائل ہو جاتی ہے۔۔ عقل مند بننا چھوڑ دو،بہت کچھ سیکھ پائو گے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں