میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مہنگائی اور مشکلات کی چکی میں پستے عوام

مہنگائی اور مشکلات کی چکی میں پستے عوام

جرات ڈیسک
منگل, ۲۴ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستانی عوام مہنگائی اور مشکلات کی جس چکی سے گزر رہے ہیں، وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آرہی۔پاکستان کی معیشت اور عوام کی مشکلات کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں جن میں گڈ گورننس کی کمی، ترقیاتی ہدف کی جانب نیک نیتی سے پیش قدمی کا نہ ہونا، سیاسی ماحول میں تسلسل سے کھنچاؤ لیکن معاشی اعتبار سے ان سب کی جڑ دو اہم مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ان دونوں مسئلوں کا قابل عمل حل جب تک تلاش نہیں کیا جائے گا نہ تو ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہوگا اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی میں کسی بہتری کی امیدکی جا سکے گی۔پاکستان کو جن دو بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور بجلی کی مد میں کپیسٹی چارجز کی رقم، ان دونوں مسئلوں نے پاکستانی معیشت اور عوام کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے اس مالی سال کے دوران 40 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے۔اس ادائیگی میں قرض کی اصل رقم تو صرف 8بلین ڈالر ہوگی جب کہ باقی 32 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔پاکستان کے پاس آمدنی ہو یا نہ ہو اسے ہر حال میں 32 بلین ڈالر تو ادا کرنے ہی ہوں گے۔بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہر سال قرض پر دیے جانے والے سود کی مد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں کی وجہ سے جن میں سے اکثریت کے مالکان خود ارباب اختیار اور ان کے رشتہ دار ہیں ان اداروں کو ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق خواہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا کریں یا بالکل ہی نہ کریں ہمیں ان اداروں کو ساڑھے7 بلین ڈالر کپیسٹی پیمنٹ کے طور پر دینا پڑتے ہیں۔ سالہا سال گزر جانے کے باوجود حکمرانوں نے اس سے نکلنے کے لیے نہ تو کوئی پالیسی بنائی اور نہ ہی ان معاملات کو حل کرنے کے زبانی دعووں کے علاوہ کوئی قدم اٹھایا اس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ ہماری معیشت میں لگی ان جونکوں کی اکثریت کا تعلق حکمرانوں یا ان کے عزیز رشتہ داروں سے ہے، ظاہرہے کہ خود اپنی آمدنی کو کون ختم کرنا چاہے گا۔ حکمرانوں کی اس مبینہ خودغرضی کی وجہ سے اب ہم کبھی سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی چین کی طرف،کبھی متحدہ عرب امارات کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی مدد دے دیں۔اس صورتحال کے ذمے دار بالواسطہ یا بلا واسطہ طورپر خود ہمارے حکمراں ہیں۔ ہم پر کتنا قرضہ ہے اور یہ کس طرح چڑھا ہے اور اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے، کوئی واضح طورپر یہ بتانے کو تیار نہیں ہے۔فارم 47 کی بنیاد پر وجود میں لائی جانے والی حکومت نے ابتدا میں جو دعوے کئے تھے ان کے پیش نظر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید حکومت اور مقتدر قوتیں ایسے اصلاحی اقدامات کریں جس سے ہم خیر کی راہ پر چل نکلیں۔لیکن بدقسمتی سے وہی ”ڈھاک کے تین پات“… افسوس کہ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا“۔معاشی ماہرین اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اشرافیہ عوام کو ہر معاملے میں دھوکے میں رکھ رہی ہے۔ حکومت سہانے خواب دکھاتی ہے کہ 10 بلین ڈالر فلاں جگہ سے آ رہے ہیں۔ 15 ملین ایک بین الاقوامی ادارہ امداد کے طور پر دے رہا ہے اور جب یہ رقوم آجائیں گی تو ہم خسارے پر بھی قابو پا لیں گے، کپیسٹی چارجزکا مسئلہ بھی حل کر لیں گے، سود کی قسط بھی ادا کر دیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مہیا کر سکیں گے۔یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہے کہ کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے اور سوچے کہ میں اب محفوظ ہو گیا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک خواب دکھانے کے مترادف ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ حکمران اور سیاست دانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں معلوم ہوتیں۔ وہ اصل مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے، ایسا محسوس ہورہاہے کہ صرف ڈنگ ٹپاؤ کام ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال ایک پیچیدہ اور گنجلک جال بن چکا ہے۔ اس کا سرا نہ تو کوئی نیک نیتی سے پکڑنا چاہ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی فکر ہے۔ہمارا اب تک کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے حکمران اپنی آنکھیں اور دماغ نہیں کھول رہے۔پاکستان کی نسبت کم تر وسائل رکھنے والے ملک اور مشکلات سے گھری قوموں نے بھی منزل کو جانے والا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے لیکن ایک ہم ہیں جو اپنی ہی صورت کو بگاڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس من حیث القوم وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے مسائل کے حوالے سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنے کی ضرورت ہے،ان مسائل کے حل کیلئے ہمیں نعرے بازی اور بیانیے کی جنگ کو چھوڑ کرملک اور قوم کی تعمیر کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے دکھ درد کا مداوا کب ہوگا؟اور کون کرے گا؟یہ ہے وہ سوال جو پاکستان کے عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں اور اسی کے جواب کی تلاش میں کبھی وہ سنگجانی جاتے ہیں کبھی کاہنہ۔
اس وقت پاکستان پر کتنے قرضے واجب الادا ہیں۔ ہر پاکستانی یہ جاننا چاہتاہے،اور کم وبیش ہر محب وطن پاکستانی کو اس بات کی فکر ہے کہ ہمارے سر سے قرضوں کا بوجھ کب اترے گا اور کیسے اترے گا۔ گوگل کے مطابق پاکستان پر اس وقت223ارب امریکی ڈالر غیر ملکی قرضے ہیں اور ابھی ہم آئی ایم ایف کے در پر دستک دے رہے ہیں۔ وہاں سے دستک کا جواب بھی بڑے رد و کد کے بعد دیا جاتا ہے۔ قرضہ لینے کیلئے بھی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ کچھ خوشحال ملکوں سے ضمانت دلوانا ہوتی ہے یعنی پہلے ان کا مقروض ہونا پڑتا ہے اگر وہ قرضہ جاری کردیں تو عالمی مالیاتی ادارہ بھی قرضے کی قسط جاری کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے اجرا میں بڑے فاصلے ہیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ اب جو 7ارب ڈالر ملنے والے ہیں یہ بہت قیمتی قرضہ ہے۔ یہ ڈالر کہاں استعمال ہوں گے، یہ مسودہ بھی مجوزہ آئینی ترامیم کی طرح نایاب ہے۔خبر،آگہی، علم، واقفیت، ادراک، سارے الفاظ ہم معنی ہیں۔ مگر ان کے درجات الگ الگ ہیں۔ قرض لینے کیلئے جتنی شرائط ہیں۔ مختلف مراحل ہیں۔ خبر سے ادراک تک بھی اتنے ہی فاصلے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کرآج تک پاکستان مسلسل مالیاتی بحران سے دوچار ہے، جس کی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار زدہ سیاست ہے، عہدِ رفتہ سے لے کر دور حاضر کے حکمرانوں نے زیادہ تر نج کاری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی لیکن کئی عشرے گزر گئے حکومت نے کسی بھی قسم کی کوئی نئی صنعت نہیں لگائی،یہی وجہ بیروزگاری، معیشت کا زوال اور ملکی عدم استحکام کا سبب بنا، لہذا جب تک جاری فرسودہ نظام کی اصلاح نہیں کی جاتی، معیشت زوال پزیر رہے گی۔ملک میں جتنے بھی ٹیکس لگا ئیں اس سے جی ڈی پی کا تناسب گورننس کو بہتر نہیں کر سکتا اور نہ ہی ملک میں مہنگائی ختم ہو سکتی ہے، اور نہ ہی عوامی خدمات کی فراہمی یا انسانی وسائل کو بہتر بنانے کے قابل کیا جاسکتا ہے،روزبروز معاشی اشاریے تیزی سے تہہ وبالا ہو رہے ہیں، پالیسیوں میں بنیادی خامیوں کی وجہ سے اندرونی مالیاتی مدد حاصل نہیں ہو پاتی، لہٰذا مختصر مدت میں ان حالات کو سدھارنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، معاشی ترقی میں کمی کے اثرات غریب عوام کو سہنے پڑتے ہیں، ملک کا معاشی عدم توازن خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے،محسوس یہ ہوتاہے کہ موجودہ حکومت کے اقتصادی ماہرین نے معاشی بد حالی کو نظر انداز کر رکھا ہے، اور ذاتی مفاد کے نت نئے طریقوں پر عمل پیرا ہے،جس سے ملک میں بے روز گاری میں اضافہ اور محصولات کی و صولی میں کمی واقع ہو رہی ہے، ان عوامل میں توازن بر قرار رکھنے کیلئے حکومت بڑے قرضے لے رہی ہے،لیکن زیادہ تر محصولات کی وصولیاں قرض کی ادائیگی میں چلی جاتی ہیں، سیاسی بد امنی اور عدم استحکام کی وجہ سے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو شدید معاشی جمو د کا سامنا ہے،حکمرانوں کواس بات کا ادراک نہیں کہ ایک غیر مستحکم سیاسی نظام ملک کیلئے بڑا خطرہ ہے، جو ملک میں با اختیار نظم و نسق اور قانون کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے، جو کہ گزشتہ50 سال کی بلند شرح پر پہنچ گیا ہے، 2010 سے صنعتی یونٹوں کی بندش جاری ہے اس کی بڑی وجہ معاشی مشکلات ہیں اقتصادی دشواریوں کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کا بحران بھی کاروباری طبقے کی مشکلات ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کو عالمی سطح پر مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سی پیک (چین پاکستان اکنامک کوریڈور) جیسے بڑے منصوبے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سی پیک کے تحت بننے والے صنعتی زونز، توانائی کے منصوبے اور انفراسٹرکچر کی ترقی سے ملکی معیشت میں انقلاب برپا ہونے کے امکانات ہیں۔اس کے علاوہ، حکومت کی کوشش ہونی چاہئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی بڑھائی جائے، جس سے ملکی برآمدات کو فروغ ملے گا۔ پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز سنگین ضرور ہیں، لیکن ان سے نمٹنے کے لیے درست اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ شرح سود میں کمی، زرعی اور صنعتی شعبوں میں اصلاحات، اور سیاحت کے فروغ جیسے اقدامات پاکستانی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل ابھی موجود ہیں لیکن ان چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے قوم کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔معاشی اصلاحات کا تسلسل اور عوام کے تعاون سے پاکستان نہ صرف ان مشکلات سے نکلے گا بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی سر زمین عطا کی ہے جس میں ہر نعمت موجود ہے۔ سمندری وسائل، دریا، سر سبز پہاڑ، زرخیز زمینیں، تیل و گیس کی دولت سے مالامال ریگ زار۔ ایک روز خبر دی جاتی ہے کہ سمندر کی تہ میں بے حساب ذخائر مل گئے ہیں۔ مسائل اور مصائب میں گھری قوم مشکل سے کچھ پُر امید ہوتی ہے مگر اس کے بعد اس سے ملحقہ کوئی خبر نہیں آتی ہے ریکوڈک کے بارے میں بھی خاموشی ہے۔ گندم کی قیمت خرید بر وقت مقرر نہ ہونے سے جو الجھنیں پیدا ہوئی تھیں۔ اگلی فصل کیلئے کیا ارادے ہیں، اس پر پارلیمنٹ میں کوئی بات نہیں ہورہی ہے، کوئی سوال نہیں پوچھا جا رہا ہے۔ 60فی صد آبادی نوجوان ہے، توانا ہے، بہت قیمتی اثاثہ۔ ہمارے نوجوان وہ سب کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو امریکہ یورپ کے نوجوان بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے، اور اگر ہم مل کر محنت کریں اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اْبھرے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں