45 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ‘پاکستان کو بیرونی منڈیوں میں سخت مشکلات کاسامنا
شیئر کریں
فاضل گندم بیرونی منڈیوں میں فروخت نہ ہوسکی توگندم خراب اور پاکستان کا بھاری زرمبادلہ سے محروم ہونے کا خدشہ ہے
پاکستانی گندم کے روایتی خریدار افغانستان کو اب قازقستان کی جانب سے گندم فراہم کیے جانے سے پاکستان کی برآمد متاثر
ایچ اے نقوی
پاکستان کے پاس اس وقت 45 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا فاضل ذخیرہ موجود ہے لیکن اس میں سے15 لاکھ ٹن گندم فروخت کرنے کیلئے پاکستان کو بیرونی منڈیوں میں سخت مشکلات کاسامنا ہے، اطلاعات کے مطابق پاکستان کو اپنی فاضل گندم کی فروخت کیلئے دو محاذوں پر مشکلات کاسامنا ہے۔ اول گندم کامیعار دوم اس کی قیمت ،وزارت تجارت کے اندرونی ذرائع کے مطابق پاکستان کی ذخیرہ کردہ گندم کی خریداری اور اس کے ذخیرہ کیے جانے کے مرحلوں میں گندم کے معیار پر توجہ نہ دیے جانے کی وجہ سے اس کے معیار پر سوال پیداہوگئے ہیں اور بیرونی منڈیوں میں اسے خریداروں کیلئے قابل قبول بنانا مشکل ثابت ہورہاہے۔ دوسری جانب پاکستان میں گندم کے کاشتکاروں کو دی جانے والی سبسڈی کی وجہ سے پاکستان کی گندم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نسبتاً مہنگی ہے جس کی وجہ سے فاضل گندم کے لیے خریدار کی تلاش اور بھی زیادہ مشکل ہوگئی ہے۔
وزارت کے اندرونی ذرائع کاکہناہے کہ اگر پاکستان اپنی فاضل گندم بیرونی منڈیوں میں فروخت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکاتو خدشہ ہے کہ یہ فاضل گندم گوداموں میں پڑے پڑے خراب اور ناقابل استعمال ہوجائیگی اور اس طرح پاکستان بھاری قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوجائیگا۔
فاضل گندم کے حوالے سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق پنجاب میں اس فصل کے دوران مارکیٹ سے 40 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی تھی جبکہ سندھ سے 12 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی جبکہ پاکستان ایگریکلچر ل اسٹوریج اور سروسز ڈیپارٹمنٹ نے بھی پاکستان کے مختلف علاقوں سے مجموعی طور پر 2لاکھ ٹن گندم خریدی جبکہ پنجاب کے پاس 25 لاکھ ٹن اور سندھ کے پاس 3 لاکھ ٹن گندم پہلے ہی سے موجود تھی۔ اس طرح ذرائع کے مطابق اس وقت پنجاب کے پاس 65 لاکھ ٹن اور سندھ کے پاس 12 لاکھ ٹن ،پاسکو کے پاس 20 لاکھ ٹن اور خیبر پختونخوا کے پاس 3 لاکھ ٹن فاضل گندم موجود ہے۔اس میں سے پنجاب فلور ملز کو 30 لاکھ ٹن ، سندھ 10 لاکھ ٹن اور پاسکو 4 ٹن گندم فراہم کریں گے،جس کے بعد بھی حکومت کے پاس گندم کا کم وبیش 45 لاکھ ٹن کا فاضل ذخیرہ موجود ہوگا۔
گندم کے فاضل ذخیرے کو دیکھتے ہوئے پنجاب کی حکومت نے15 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔لیکن ملک میں گندم کی بہت زیادہ قیمت کی وجہ سے گندم کے تاجر یہ ذخیرہ اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ بیرونی منڈی کے خریدار اعلیٰ معیار کے متقاضی ہیں جبکہ اتنی زیادہ قیمت پر کوئی گندم کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہے،اس وقت عالمی منڈی میں گندم کی قیمت 140 سے 180 ڈالر فی ٹن چل رہی ہے جبکہ پاکستان میں گندم کی قیمت اس سے دگنی سے بھی زیادہ یعنی کم وبیش 320 ڈالر بتائی جاتی ہے ، گزشتہ 2 سال کے دوران پاکستان نے اپنے گندم کاکم وبیش 10 لاکھ ٹن کا فاضل ذخیرہ افغانستان کے پاکستان کے قریب واقع صوبوں کو فروخت کیا تھا ،لیکن پنجاب کی حکومت نے یہ گندم برآمد کرنیوالے تاجروں کو 5 ارب روپے کا زر تلافی یعنی ریبیٹ ابھی تک ادا نہیں کیاہے۔ اس حوالے سے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے صدر عاصم رضا کاکہناہے کہ پنجاب حکومت نے 15 لاکھ ٹن گندم 170 ڈالر کی شرح سے برآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے اور کہاہے کہ قیمت کابقیہ فرق پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت مل کر برداشت کرلیں گے۔فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت گندم کی برآمد پر زرتلافی صرف زمینی راستے سے گندم کی برآمد پر دینے کے بجائے بحری اور فضائی راستے سے گندم کی برآمد پر بھی اسی شرح سے زرتلافی ادا کرے۔فلور ملز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ اگرچہ افغانستان پاکستان کی گندم کا روایتی خریدار ہے اور اسے سالانہ کم وبیش18 لاکھ ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اسے 15 لاکھ ٹن گندم برآمد کی جاسکتی ہے لیکن قازقستان نے افغانستان کو سستے داموں گندم کی فراہم شروع کردی ہے اور خیال کیاجاتاہے کہ وہ افغانستان کو اس سال 9 سے12 لاکھ ٹن تک گندم برآمد کرے گا۔ اس طرح افغانستان میں پاکستانی گندم کے لیے صرف 6 ٹن کی گنجائش موجود ہوگی۔ اس طرح گندم کے تاجروں کو گندم کی فروخت کے لیے دوسری منڈیاں بھی تلاش کرنا پڑے گی اور زرتلافی کے بغیر پاکستانی گندم برآمد کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
فلور ملز کے برآمدات سے متعلق شعبے کے ذمہ دار ملک طارق سرور اعوان کاکہناہے کہ پاکستان کی گندم صاف شدہ نہیں ہوتی اور اس میں بھوسہ اور مٹی وغیرہ بھی شامل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسے دوبارہ صاف کرنا ضروری ہوتاہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں اس کی قیمت دوسرے ملکوں کی صاف گندم کے مقابلے میں کم وبیش 3 فیصد کم ہوجاتی ہے،اُن کاکہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس فاضل گندم کا تین سال کا یعنی 2015-2016 اور2017 کا ذخیرہ موجود ہے جسے آپس میں ملادیاگیاہے اور مقامی فلور ملوں کو ایک ہی قیمت پر فروخت کیاجارہاہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے گندم کے فاضل ذخیرے کیلئے بینکوں سے قرض لے رکھے ہیں اس لیے اس کی برآمد اور فروخت میں تاخیر کی وجہ سے ایک طرف گندم خراب ہونے کا خدشہ ہے اور دوسری طرف اس میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی بینکوں کے سود میں اتناہی زیادہ اضافہ ہوتاجائیگا جو بالآخر سرکاری خزانے کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ حکومت کو فاضل گندم کی برآمد کے لیے ایک مستقل پالیسی تیار کرنی چاہئے تاکہ اس حوالے سے اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی نہ ہوں اور حکومت کو بلاوجہ زیر بار نہ ہونا پڑے، ماہرین کا کہنا ہے کہ گندم کی اگلی فصل بھی بہت اچھی ہونے کی توقع ہے اس لیے حکومت کو نئی فصل کی فاضل گندم برآمد کرنے کی بھی ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے،کیونکہ ہمیں اپنے ملک کی ضرورت پوری کرنے کیلئے مجموعی طورپر 25لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور بقیہ فاضل گندم کو فوری برآمد کردینا ہی ملک کے مفاد میں ہے۔