میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دوستی

دوستی

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

دوستی ایک وسیع المعانی لفظ ہے جس کا تعلق انسانوں اور ریاستوں دونوں سے ہے۔ اردو میں کہتے ہیں کہ دوست وہی ہے جو مشکل میں کام آئے اور انگریزی میں "friend in need is friend in deed” کہتے ہیں۔اس بات کا مطلب وہی ہے کہ سچا اور اصل دوست وہی ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے۔ انسان ہو یا ریاستیں دوست بناتے وقت ہم آہنگی ،ذہنی میلان اور نظریات کو ترجیح دی جاتی ہے گویا اقبال کی زبان میںـ” کرگس باکرگس بازباباز” والا معاملہ ہوتا ہے، اقبال نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ” پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانا ”
ایک اور شاعر نے کہا
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
بات دوسری طرف نکل گئی لیکن ایسا کرنا ضروری تھا کہ قارئین کی دلچسپی کا سامان بھی ضروری ہے ۔
الغرض بھائی ہونا مجبوری ہو سکتی ہے کہ ایک بھائی غلط کار ہے لیکن ماں اور باپ ایک ہی ہیں تو یہ مجبوری ہے کہ یہ رشتہ ختم نہیں ہو سکتا لیکن دوستی میں کوئی مجبوری نہیں ہوتی۔ انسان ہو یا ریاستیں دوستی کی بنیاد باہمی ہم آہنگی اور مفادات کا یکساں ہونا ہوتی ہے ۔
پاکستان اور چین کی دوستی تو ایک مثال ہے لیکن اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو ایران وہ ملک ہے جس نے قیام پاکستان کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقفہ میں ناصرف پاکستان کو تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور تہران میں پاکستانی سفارتی خانہ کے لیے عمارت بھی مختص کر دی تھی لیکن آج کیا حال ہے اِسے بیان کرنا ضروری نہیں۔ پاکستان اور چین کی دوستی بھی تعلقات سے زیادہ مفادات سے وابستہ ہے۔ چین کے جو مفادات پاکستان سے پورے ہو سکتے ہیں وہ خطہ کا کوئی دوسرا ملک نہیں کرسکتا ۔اسی طرح بھارت خود خطہ کا تھانیدار بننا چاہتا ہے اور نیپال،بھوٹان کی طرح پاکستان اور چین کو بھی اپنی طفیلی ریاست بنانا چاہتا ہے لیکن چین ایک ابھرتی ہوئی قوت ہے جس کا مقابلہ کرنا بھارت کے لیے ممکن نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں وہ چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کا خصوصی نشانا بلوچستان ہے کہ سی پیک کی بنیاد گوادر سے وابستہ ہے اور گوادر بلوچستان میں واقع ہے۔ بھارت بلوچستان میں بدامنی کی فضاء برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ اسی کوشش کا نتیجہ کلبھوشن یادیو کا بلوچستان میں تعینات کیا جانا تھا لیکن پاکستان کی خوش قسمتی اور بھارت کی بدقسمتی یہ رہی کہ کلبھوشن یادیو پکڑا گیا اور ایسے پکے ثبوتوں کے
ساتھ پکڑا گیا کہ جس سے انکار بھارت کے لیے ممکن نہ تھا۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی ملوں میں بھارت کے آئی ٹی ایکسپرٹ اور دیگر افراد کام کر رہے ہیں جنہیں حکمرانوں نے پورے ملک میں گھومنے کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے جن کا اندراج قواعد کے برخلاف کسی تھانہ میں نہیں تھا لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ کلبھوشن نے گرفتاری کے ساتھ ہی ان کی نشاندہی بھی کر دی اور یہ عناصر جو مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے پیرول پر ہیں ،بے نقاب ہو گئے اگر یہ صرف آئی ٹی ایکسپرٹ ہوتے تو اس علاقے میں را کے چیف ایجنٹ کو ان کی بابت آگاہی ضروری نہیں تھی لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے کہ جو ابھی تک پردے میں ہے ۔گزشتہ چار سال کا جائزہ لیا جائے تو جب بھی نواز شریف حکومت کسی بھی نوعیت کے اندرونی مسائل کا شکار ہوئی ہے تو بھارت کی جانب سے بین الاقوامی سرحد اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور شہری بستیوں کو نشانا بنایا جانا معمول کا حصہ رہا گویا سرحدی صورتحال کشیدہ کر کے ملک کے اندرونی مسائل پر سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ پاناما کا معاملہ جب آخری اسٹیج پر پہنچا تو یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا اور اس مرتبہ خدشہ تھا کہ یہ سلسلہ محدود جنگ میں تبدیل ہو کر نوازشریف کو اس الجھن سے نکالنے کا سبب نا بن جائے کہ بھارتی اشتعال انگیزی میں کافی شدت تھی۔ بھارتی سورماؤں نے نہ صرف پاکستانی سرحدی حفاظتی دستوں کو نشانہ بنایا بلکہ شہری آبادیاں بھی اس کی گولہ باری سے محفوظ نہ رہی اور بڑی تعداد میں شہری بھی شہید ہوئے ۔
بھارت اور چین کے درمیان سکم کے علاقوں کی ملکیت کا تنازع تازہ نہیں ہے۔ یہ تنازع تقریباً اتنا ہی طویل ہے جتنی چین کی عمر ہے لیکن جب بھارت کی اشتعال انگیزی پاکستانی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر ایک حد سے زیادہ بڑھی تو چین نے بھی سکم کے سیکٹر میں اپنی فوجوں کی نقل وحمل کو بڑھاوا دیا اور بھارت کی معمولی اشتعال انگیزی کو جوازبنا کر کئی گھنٹوں پر مشتمل گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں پاکستانی سرحدوں پر بھارتی اشتعال انگیزی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مودی اور سجن جندال کی جانب سے اپنے سجن کو بچانے اور اس کا اقتدار برقرار رکھنے کی کوششوں پر پانی پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اگر چین سکم سیکٹر پراپنی بھاری نفری نہیں لگاتا اور بھارت کو اس جانب سے پیش قدمی کا خطرہ نہ ہوتا توجیسا کہ بھارتی میڈیا پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کر رہا ہے اس پر عملدرآمد بھی ممکن تھا لیکن چین کے اقدام نے بھارت کو دوسری جانب الجھا کر اس اشتعال انگیزی سے باز رہنے کے واضح تنبیہ دے دی ہے۔ یہ چین کی پاکستان سے سچی دوستی اور اپنے مفادات کے تحفظ کی واضح نشانی ہے ۔
یوں تو میاں صاحب کی دوستیاں دنیا کے کس کونے میں نہیں ہے لیکن جب مشکل وقت آتا ہے تو بزرگ کہتے ہیں کہ سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ۔ قطری شہزادہ آنے کو تیار ہے دبئی والوں نے تو ڈبو ہی دیا ہے کہ نہ صرف کسی بھی دستاویز کی تصدیق نہیں کی بلکہ واضح طور پر بتا دیا کہ جناب طارق شفیع کے نام پر بننے والی مل بھی میاں نوازشریف ہی کی تھی اور میاں صاحب متحدہ عرب امارات میں ملازمت کا اقامہ لے کر ایک فرم کے مارکیٹنگ منیجر سے چیئرمین تک کا سفر طے کر چکے ہیں اور ان کی چیئرمین شپ اس دور میں بھی جاری رہی جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بن چکے تھے۔ سعودی عرب نے کوئی ایسا ثبوت نہیں دیا ہے کہ جس سے جدہ کی مل جو تعمیر تو 2001/2002 کے درمیان ہوئی اور اس کی فروخت کے ذریعہ ہونے والی آمدنی 1993 میں لندن میں منتقل کر کے مے فیئر کے فلیٹس خریدے گئے ہوں۔ برطانیا،لگسمبرگ سے بھی دستاویزات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اور برطانیا میں بنائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جو فونٹ کی ایجاد سے پہلے ہی اس فونٹ میں ٹائپ کر لی گئی تھی اور جس کی تصدیق بھی برطانیا میں چھٹی والے دن نوٹری پبلک نے خصوصی طور پر کی یو۔ں عدالت عظمیٰ میں ثابت ہوگیا کہ یہ دستاویز بھی جعلی ہے۔ معاملہ عدالت میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا اب صرف عدالت نے اپنا فیصلہ سنانا ہے لیکن اس ساری صورتحال میں ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ ہندو اور ہندوستان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے، دوستی یاری کیا ہوتی ہے یہ بنیا مہاراج کیا جانے۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں