ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے
شیئر کریں
اللہ اللہ ! طالبان تو ڈر ہی گئے ہوں گے!
پینٹاگون نے دفعتاً جھرجھری لی ہے، امریکی فوجی مرکز کے ترجمان جان کربی نے اچانک کہا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں اور انہیں حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل سست کیا جا سکتا ہے ۔ امریکی ترجمان کو افغان سرزمین پر اپنے تکبر کی قبر پر احتراماً کچھ دیر خاموش کھڑے رہنا چاہئے۔ امریکی افواج کے انخلاء کے عمل میں سستی دراصل مردے کو خراب کرنا ہے۔ طالبان کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ البتہ امریکی غلاموں کی بات دوسری ہے۔
اَٹھتّر سالہ امریکا کے چھیالیسویں صدر جوبائیڈن امریکی صدور کی ترتیب میں چوتھے رہنما ہیں جو افغانستان کے مسئلے سے نبرد آزما ہیں۔ امریکی صدور بش جونیئر، اُباما اور ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن افغانستان سے نمٹتے ہوئے کیلنڈر پر دودہائیوں کے روز وشب کا لیکھا جوکھا جانچ رہے ہیں۔ اُن کا تعلق ایک ایسی نسل سے ہے جو ویت نام کی جنگ کے ڈراؤنے خوابوں سے آگاہ ہے۔ انسانی نفسیات پر کچھ مخصوص حالات کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے خواب دیکھتے ہیں کہ شدید دُھند میں سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں وہ کسی خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔کسی خوف ناک چیز سے شدید خوف میں بچنے کی کوشش کے دوران میں خواب دیکھنے والا اپنا جسم بالکل مفلوج محسوس کرتا ہے۔ اس کشمکش میں اچانک وہ بیدار ہوتا ہے ، اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا ہے اوروہ راحت محسوس کرتا ہے۔ یہی خواب کچھ دنوںکے بعد دوبارہ اُسے جکڑ لیتا ہے۔ جوبائیڈن کی نسل نے ایسے خواب 1973 ء میں دیکھنے شروع کیے جب ویتنام میں اُنہیں بھاگتے امریکیوں کی لاشیں اُٹھانا پڑیں۔ یہ آنجہانی سوویٹ یونین کا امریکا کے لیے تحفہ تھا۔ جو کبھی خلافت ِ عثمانیہ کی عظیم اسلامی سلطنت کے خاتمے کے لیے برطانیا کے ساتھ گھناؤنی سازشوں میں شریک رہتا۔ امریکا ویتنام میں غلطی کر بیٹھا۔ جنوب میں واقع ویتنام کا سب سے بڑا شہر ہوچی منہ جسے سیگون بھی کہا جاتا ہے، امریکی فوجیوں کی لاشوں کو اُٹھاتا۔ پھر 1975ء کے وہ مناظر اُبھرے، جس نے جوبائیڈن کی نسل کو ڈراؤنے خواب دکھائے۔سیگون کی سڑکوں پر کمیونسٹ ٹینک پھسلنے لگے، امریکی بھاگتے دکھائی دیے۔ اُن کے ویتنامی اتحادی امریکی سفارت خانے کے دروازوں پر ایک دوسرے کو دھکے دیتے نظر آئے۔ خوف زدہ ویتنامی اتحادیوں کو ناکافی امریکی ہیلی کاپٹرز کی چھتوں پر بیٹھ کر بحری جہازوں میں اُتارا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا زعم ویتنام کی سڑکوں پر امریکیوں کے خون کے ساتھ جذ ب ہو گیا تھا۔
امریکا مگر چالاک ہے۔ اُس نے سوویٹ یونین کو اُس کا” ویتنام” دینے میں دیر نہیں لگائی اور افغانستان کو بطور ویتنام سوویٹ یونین کے حوالے کیا۔ بیسویں صدی کے آخری ربع میں مشرقی یورپ ڈھے پڑا تھا، وسطی ایشیا کو سرخ ریچھ نے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تھا۔ باری دریائے آمو کی تھی اور بیچ میں افغانستان تھا۔ ٹوائن بی نے جسے تاریخ کا چوراہا کہا۔آنکھیں چھوٹی ہو اور خواب بڑے ہو تو چبھتے ہیں۔ سوویٹ یونین کا حجم جتنا بھی رہا ہو، افغانستان کو دیکھنے والے آنکھیں ہمیشہ چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔سرخ ریچھ نے 1978ء میں افغانستان میں اپنی پیش قدمی کی۔ امریکی دستاویزات مگر یہ بتاتی ہیں کہ افغان مزاحمت کیسی ہی کیوں نہ ہو، سوویٹ یونین واپس نہیں پلٹے گا، یہاں تک کہ وہ بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں میں جا پہنچے گا۔امریکی بہت بعد میں مدد کو آئے تھے جب وہ فرسودہ توڑے دار بندوقوں کے ذریعے دسمبر 1979ء سے اکتوبر 1980 ء تک افغانوں کی ہکا بکا کردینے والی مزاحمت کا مشاہدہ کر چکے۔ افغانوں کی کامیابی کا یقین اُنہیں تب بھی نہیں تھا۔ یہ بات دنیا کبھی نہیں سمجھے گی یہاں تک کہ پاکستان کے مسلمان بھی جو دلوں میں بت کدے رکھتے ہیںکہ افغانستان میں بندوقیں نہیں ایمان لڑتا ہے۔ افغانوں کی مزاحمت کی نصرت انسان نہیں کوئی اور مخلوق کرتی ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے نکتہ واضح کردیا تھا:
بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے
سُرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے
تُو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے
جہاں میں بندئہ حُر کے مشاہدات ہیں کیا
تِری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے
پھر یہ افغانستان تھا جہاں سوویت یونین کا ستارۂ مقدر ڈوب گیا۔ دریائے آمو کی لہریں ہموار رہیں۔پینٹاگون کے ترجمان کے علم میں ہونا چاہئے تب صدر گوربا چوف نے کیا کہا تھا: افغانستان ہمارا رِ ستا ہوا ناسور ہے، اس میں پھنس کر ہم نے غلطی کی”۔سرزمین ِ افغانستان سے نکلنے والے آخری روسی کے الفاظ بھی یاد کرلیں۔ وہ افغانستان سے نکلنے کی طے شدہ تاریخ سے بھی ایک روز قبل انتہائی عجلت میںنکلا تھا، اُس نے دریائے آمو کے پُل پر کھڑے ہو کر کہا تھا: میں پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتا، آئندہ ہم ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گے”۔ یہ کوئی عام آدمی نہیں ایک روسی جرنیل تھا۔
امریکا کو چاہئے کہ وہ بھی مزید کوئی غلطی نہ کرے۔ امریکاافغان تاریخ کو یاد رکھے! افغان بھاگتے حملہ آوروں کے لیے زیادہ بے رحم ہو جاتے ہیں۔ امریکا نے سیگون سے بھاگتے ہوئے نہایت مایوس کن مناظر کا سامنا کیا تھا۔کانگریس نے اپریل 1975 ء میں شکست کے بعد مزید پیسہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ تب جوبائیڈن پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں امریکیوں کا ساتھ دینے والے ویتنامیوں کی ذمہ داری اُٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ سیگون دنوں میں ڈھے پڑا۔ اور امریکی چوروں کی طرح بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ جوبائیڈن ان ڈراؤنے خوابوں کو دیکھتے رہے ہیں۔ شاید اسی لیے اُنہوں نے افغانستان سے انخلاء کے لیے پانچ ماہ کا ایک لمبا عرصہ رکھا ۔ تاکہ امریکی راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے دکھائی نہ دیں۔مگر عملاً امریکی 11 ستمبر کی طے شدہ تاریخ سے بہت پہلے افغان سرزمین چھوڑنا چاہ رہے ہیں۔ وہ سیگون کے بھیانک مناظر کا افغان تیوروں کے ساتھ اعادہ نہیں چاہتے، جو زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔
ایک مہذب وقفہ اور مزید بے عزتی سے بچتے ہوئے سکون سے انخلاء یہ بائیڈن انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ تاہم وہ اپنی جسمانی موجودگی کے بغیر افغانستان میں اپنی مداخلت کے بے ہودہ امریکی انداز جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس کا حد سے زیادہ شعور رکھتے ہیں۔ اُنہیں جدیدیت کامنتر سحر زدہ نہیں کرتا اور اُن کی دہقانی طبیعت پر تہذیب کی پَریاں اور پُڑیاں دونوں ہی اثر نہیں کرتیں۔
طالبان آگے بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان کے نصف سے زائد اضلاع اب اُن کی گرفت میں ہیں۔ عبدالرشید دوستم آخری اطلاعات کے مطابق فرار ہو چکے۔ اُن کے صاحبزادے دین کی جانب راغب ہیں۔ طالبان امیرشیخ الحدیث والتّفسیر ہیبت اللہ اخوند کے حکم کے مطابق صوبوں کا مرکزی کنٹرول دانستہ نہیں لیا جارہا ۔ مختلف اضلاع کے ذریعے امریکا کے لے پالکوں کا ایک زمینی گھیراؤ کیا جارہا ہے۔ اس طرح ایک کے بعد ایک ضلع طالبان کے آگے سر تسلیم خم کررہا ہے۔ ابھی لوگ انداز ا نہیں کرسکے کہ طالبان جب پہلی مرتبہ اُٹھے تھے، تب وہ کامیابی کی کوئی داستان بھی نہ رکھتے تھے۔ اُنہیں ابتدا میں جو صوبے میسر آئے تھے وہ پکتیا، پکتیکا ، خوست اور گردیز کے تھے۔ طالبان ریاست کے قیام کے بعد بھی پوری طرح شمالی افغانستان اُن کے کنٹرول میں نہ آسکا تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر طالبان ابھی اپنے پرانے علاقوں کا کنٹرول حاصل بھی نہیں کر پائے کہ شمالی افغانستان کے اکثر اضلاع اُن کی گرفت میں ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ علاقے ہیں جو پہلے کبھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ افغان فورسز کے اکثر جنگجو لیڈرز طالبان سے خاموش رابطوں میں آگئے ہیں۔ اشرف غنی کی کمزور اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے سربرآوردگان اپنی زندگیوں کی ضمانتیںمانگ رہے ہیں۔ اشرف غنی امریکا میں اپنے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت مانگنے تشریف لے گئے ہیں۔ بیچارے عبداللہ عبداللہ کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ ان لے پالکوں کے برعکس افغانوں کا جذبۂ مزاحمت اُن کے ایمان کی طرح تازہ رہتا ہے۔ برطانوی محلات سے اُٹھنے والے آوارگی کے بھبھکوں سے اس کا کیا مقابلہ؟ آنجہانی سوویٹ یونین کی وحشتوں کا اس سے کیا علاقہ؟ امریکی جدیدیت کے منتروں کا یہاں کیا گزارا؟
کیا پینٹاگون کے ترجمان جان کربی واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلاء کا عمل سست کرنے کا بیان طالبان پر کوئی اثر کرے گا؟
جب وہ یہ فرما رہے تھے توٹھیک اس وقت طالبان اُن کے بیان سے ”ڈر ” کر افغانستان کی تاجکستان کے ساتھ مرکزی سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کررہے تھے۔ قندوز شہر سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر افغانستان کے شمال میں شیر خان بندر کی حفاظت پر مامور کٹھ پتلی انتظامیہ کے فوجی طالبان سے ڈر کر تاجکستان فرار ہوگئے۔ دیکھیں تو طالبان ڈر ڈر کر بھی کیا کارروائیاں کرگزرتے ہیں۔ وقت کا فیصلہ صادر ہوچکا۔ مگر جن کے دماغوں میں بت خانے آباد ہو، اُنہیں کوئی کیونکر اور کیسے سمجھا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔