میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان میں مزید ڈرون حملے قبول نہیں

پاکستان میں مزید ڈرون حملے قبول نہیں

منتظم
هفته, ۲۴ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں، افغانستان میں قیام امن کے لیے مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے حوالے سے پاکستان اور چین کا کردار اہم ہے۔ جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دورانترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے ڈورن حملوں سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کی پالیسی واضح ہے، ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں، ڈورن حملے غیر مدد گار اور پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے عالمی میڈیا کی خبروں پرتبصرہ سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکی بجٹ میں کٹوتی کا معاملہ امریکا کا داخلی معاملہ ہے، پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے جبکہ پاکستان نئی امریکی انتظامیہ کیساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ افغانستان سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے وفود کے تبادلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، پاکستان تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کررہا ہے اور پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے لیے پْر عزم ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان اور چین مشترکہ انداز سے کام کر رہے ہیں۔ادھر اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے حوالے سے چین کا کردار اہم ہے، چین کے وزیر خارجہ رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، اس موقع پر دونوں ممالک کے رہنما باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی صورتحال پر تبالہ خیال کریں گے۔مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے پیلیٹ گنز کا استعمال اب بھی جاری ہے، بھارتی افواج نے رواں ہفتے درجنوں افراد کو نشانہ بنایا جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی جیت کا جشن منانے والوں کو گرفتار کیا۔ترجمان نے عالمی برادری سے صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے، پاکستان نے ہمیشہ اس عالمی تسلیم شدہ تنازع کے حل کے لیے ثالثی کاخیر مقدم کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے متعلق پالیسی مزید سخت کر سکتی ہے اوراب امریکہ پاکستان سے افغانستان میں ہونیوالے حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کیخلاف کریک ڈائون کا مطالبہ کریگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بڑے غیرنیٹو اتحادی کا درجہ کم کرنے سمیت ڈرون حملوں میں اضافہ اور پاکستان کی امداد میں تبدیلی یا اسے روکے جانے کے امکانات زیرغور ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان سے تعلقات میں کمی نہیں بلکہ بڑا تعاون چاہتا ہے جس کیلئے افغانستان میں 16 سالہ جنگ سے متعلق اسٹریٹجی کا جائزہ مکمل ہونے کے بعد اہم اقدامات اٹھائے جائینگے۔
پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان وسیع تر قومی سلامتی کے امور پر شراکت داری جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ افغانستان میں مزید فوجی دستے تعینات کرنے کو تیار ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں افغان سفیر حمداللہ محب نے بھی اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان کیلئے امریکی پالیسی مزید سخت ہوگی، جبکہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام کی جانب سے باور کرایا گیا ہے کہ اب امریکہ کیلئے ’’ڈومور‘‘ کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں وائٹ ہائوس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایا کہ واشنگٹن انتظامیہ پاکستان کے ساتھ جاری عسکری تعاون میں کمی کا بھی سوچ سکتی ہے تاہم اس نئی حکمت عملی کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی دستاویز جاری نہیں کی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ جولائی کے وسط تک اپنی علاقائی حکمت عملی پیش کر سکتی ہے۔
امریکی حکام کے حوالے سے برطانوی خبر رساں ایجنسی ’’رائٹرز‘‘ کی جاری کردہ یہ رپورٹ کس حد تک درست ہے اس کافیصلہ تو وقت آنے پر ہی ہوسکے گا لیکن اگر اس میں معمولی سی بھی صداقت ہے توامریکی حکام کا یہ عمل افغان جنگ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی کے ساتھ امریکی طوطا چشمی کی بدترین مثال ہوگی ۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کو سالانہ بجٹ میں پاکستان کیلئے فوجی سازوسامان کی مد میں دی گئی گرانٹ قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی جس کا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسودہ بھی تیار کرکے امریکی کانگرس کو بھجوادیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ڈرون حملوں کا منقطع سلسلہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شروع کر دیا گیاہے اور ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اب تک پاکستان میں 5 ڈرون حملے کئے جاچکے ہیں جبکہ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر ہر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کا معاملہ میں بھی امریکہ افغانستان کو تھپکی دیتا نظر آتا ہے۔ اگر امریکہ افغانستان کے مبینہ الزامات کی بنیاد پر پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ کرنے اور اس کی امداد کم کرنے یا روکنے کا عندیہ دے رہا ہے تو پاکستان کیلئے اس سے بڑی توہین اور تضحیک اور کوئی نہیں ہو سکتی اس لئے اب دانش و حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرکے دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے رجوع کرلیا جائے‘ اگر امریکہ ہماری جانب سے دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اپریشن کے باوجود ہماری سرزمین پر ڈرون حملے بڑھانے پر غور کررہا ہے تو یہ درحقیقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ ہو گا اس لئے نہ صرف یہ امریکی مجوزہ پالیسی ہمیں قابل قبول نہیں ہونی چاہیے بلکہ پاکستان میں گھسنے والے ڈرونز گرانے کی حکمت عملی بھی ابھی سے طے کرلینی چاہیے جس کا ملک کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ و دفاع کی خاطر ہمیں پورا حق حاصل ہے۔
کیایہ طرفہ تماشہ نہیںہے کہ امریکہ پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسیوں کی بھی حمایت کرتا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی فروغ دینے کی بھارتی سازشوں میں عملاً شریک افغانستان کی بھی سرپرستی کررہا ہے جبکہ افغانستان امریکی شہ پر ہی ہمیں آنکھیں دکھاتا اور کابل دہشت گردی سمیت ہر دہشت گردی کا ہم پر ملبہ ڈال رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایک ڈوژیئر کی شکل میں اس امر کے ٹھوس ثبوت اور شواہد بھی امریکی دفتر خارجہ کو پیش کئے جا چکے ہیں کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری گھنا?نی وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ سارے ثبوت اور شواہد کابل انتظامیہ کو بھی فراہم کئے گئے اور افغان حکومت سے اپنی سرزمین پر موجود طالبان لیڈر ملافضل اللہ اور دوسرے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کیلئے کہا گیا مگر افغان حکومت نے نہ صرف یہ آپریشن نہیں کیا گیااور امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے افغان حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیاگیا۔ اب اگر امریکہ کی جانب سے کابل انتظامیہ کے بے سروپا الزامات کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی اختیار کرنے کا سوچا جارہا ہے جس کا برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں عندیہ دیا گیا ہے تو یہ عظیم قربانیاں دینے والے اپنے فرنٹ لائن اتحادی کو دانستہ طور پر خود سے دور دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہر ممکن کارروائی اس وقت پاکستان کی اپنی ضرورت ہے جس کیلئے اسے امریکی ڈکٹیشن کے تحت کسی مخصوص کارروائی کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اپنے مفادات کے تحت دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے پر خود بلاامتیاز اپریشن کررہا ہے جس کیلئے جاری آپریشن ردالفساد سے نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہورہی ہیں جبکہ ایسے آپریشن کی افغانستان میں پاکستان سے زیادہ ضرورت ہے۔ امریکہ کو اس کی جانب بھی توجہ دینا چاہیے اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ پاکستان نے تو پہلے ہی افغان سرحد پر سیکورٹی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا مرحلہ وار عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس سے لامحالہ دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل رکے گی تاہم دہشت گردی سے مستقل خلاصی اسی صورت ممکن ہے جب کابل انتظامیہ اس کیلئے مخلص ہوگی اور پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اپریشن کا جامع لائحہ عمل طے کریگی۔
حکومت پاکستان کو چاہئے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اچھی طرح باور کرادے کہ اگر اسے افغانستان اور اس خطے میں قیام امن مقصود ہے تو اس کیلئے اسے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی پالیسی ترک کرکے کابل انتظامیہ کو ٹھوس اقدامات کا پابند کرنا ہوگا لیکن پاکستان پر مزید دبائو بڑھانے اور پاک سرزمین پر ڈرون حملے بڑھانے کی سوچ سے افغانستان میں امن و استحکام کی فضا تو شاید ہی استوار ہو پائے اس سے پاک امریکہ تعلقات میں ضرور دراڑیں پیدا ہوں گی اس لئے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے معاملات پر سوچ سمجھ کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان بہرصورت ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جسے اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ و دفاع کے اقدامات اٹھانے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا امریکہ اپنے تحفظ کی خاطر اٹھا سکتا ہے۔ اسے بخوبی علم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت اور ٹیکنالوجی موجود ہے جس کا تازہ ترین مظاہرہ گزشتہ روز پاکستانی حدود میں گھس آنیوالے ایرانی ڈرون کو مار کر کیا گیا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود میں غیرقانونی طور پر آنیوالے امریکی ڈرون گرنا شروع ہونگے تو اس سے امریکہ کی اپنی ہی سبکی ہوگی۔ امریکہ کو یہ بات اب اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اب امریکہ کی جانب سے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کی گنجائش بلاشبہ ختم ہوچکی ہے۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں