تحریک انصاف میں اکھاڑ پچھاڑکا کھیل عروج پر، شاہ محمود قریشی، اسد عمرپرویز خٹک نشانے پر
شیئر کریں
(نمائندہ جرأت) تحریک انصاف کے اہم رہنما پارٹی چھوڑنے لگے۔ 9؍مئی کے بعد حرکت میں آنے والے اہم اداروں نے تحریک انصاف کے خلاف ابتدائی کامیابیاں تو حاصل کر لیں مگر وہ تاحال تحریک انصاف کے بڑے بتوں کو گرانے کی کوششوں میں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کراچی سے محمود مولوی ، اسلام آباد سے شیریں مزاری یا لاہور سے فیاض الحسن چوہان سمیت ایسے بہت سے رہنما ہیں جن کے جانے سے تحریک انصاف کو کوئی خاص دھچکا اس لیے پہنچنے والا نہیں تھا کیونکہ یہ رہنما عوامی پزیرائی کے لیے خود تحریک انصاف کی حمایت کے محتاج ہیں تاہم پنجاب میں الیکٹ ایبلز کہلانے والے اور تحریک انصاف میں بطور جماعت اہم پوزیشنوں پر فائز اہم ترین شخصیات کے متعلق افواہیں گرم ہیں کہ اُنہیں اپنی جماعت چھوڑنے پر ’’آمادہ‘‘ کیا جارہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق ان دنوں سب سے زیادہ جن چار اہم ترین رہنماؤں کو تحریک انصاف کے لیے زیادہ بڑا دھچکا پہنچانے کے لیے ہدف بنایا گیا ہے، اُن میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ، سیکریٹری جنرل اسد عمر سینئر رہنما اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے نام شامل ہیں۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق پارٹی چھوڑ جانے اور سیاست کو خیر باد کہنے والے اسلام آباد کے اہم رہنما عامر کیانی نے گزشتہ روز شاہ محمود قریشی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی تھی، جس کے بعد یہ افواہیں آج پورا دن گردش کرتی رہیں ، مگر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے رہائی کے حکم کے بعد جب شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل سے باہر آئے تو اُنہوں نے میڈیا کے سامنے واضح الفاظ میں تحریک انصاف چھورنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میںہوں اور رہوں گا۔ اسی دوران میں شاہ محمود قریشی وہاں موجود پولیس کے ہاتھوں تھری ایم پی او کے تحت دوبارہ دھر لیے گئے۔ یہی کچھ مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ بھی ہوا۔ تاہم اس سے قبل دوبڑے رہنما شیریں مزاریں اور فیاض الحسن چوہان نے پارٹی کو خیرباد کہا۔ ذرائع کے مطابق انتہائی خاموشی سے جن رہنماؤں پر مزید کام ہورہا ہے اُن میں اسد عمر بھی شامل ہیں۔ تاہم اہم حلقوں کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں پرویز خٹک کو سب سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ کیونکہ وہ صوبے میں گہرا اثرورسوخ رکھنے کے علاوہ دیگر پارٹی رہنماؤں پر مشتمل ایک مضبوط لابی بھی رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر اکھاڑپچھاڑ سے وابستہ اہم حلقوں کے ’’جادوگروں‘‘ کو یقین ہیں کہ پرویز خٹک کی جانب سے پارٹی کو خیر باد کہنے سے عمران خان کو ایک بڑا جھٹکا اس لیے لگے گا کیوںکہ وہ پارٹی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنے ساتھ لے اڑیں گے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ دلچسپ معاملہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کا ہے، جنہیں پارٹی چھوڑنے سے زیادہ پارٹی کے اندر رکھنے کو موثر سمجھا جارہا ہے۔ اس حوالے سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ بہت سے اہم رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ جانے کا یہ پورا کھیل ایک بڑے منصوبے کا حصہ جس میں سب سے پہلے عمران خان کو تنہا کیا جارہا ہے۔ اور اُنہیں اعصابی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح پارٹی کے بکھرنے کے تاثر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خوف میں جب عمران خان تنہا ہو جائیں گے تو پھر اُنہیں گرفتار کرنے اور نااہل کرنے کے اگلے منصوبے کو زیر غور لایا جائے گا۔ یہی وہ وقت ہوگا جب چودھری پرویز الہٰی اور پارٹی کے اندر باقی رکھے جانے والے رہنماؤں کو کہا جائے گا کہ وہ آگے بڑھ کر عمران خان کو آخری دھچکا پہنچائیں۔ اس پورے منصوبے کے برعکس بہت سے سیاسی ماہرین اور باخبر حلقوں کا یہ بھی اِصرار ہے کہ سیاست کے اندر دیگر محرکات بھی کام کررہے ہیںاور اس پورے کھیل کے باوجود عمران خان کو میدان سے باہر دھکیلنا قدرے مشکل ثابت ہوگا۔ دوسرے یہ کہ عمران خان مقبولیت کے ساتھ مظلومیت کی چادر بھی اوڑھ سکتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں مظلوم ہونا ایک بہت بڑا سیاسی کارڈ ہوتا ہے۔ جو عمران خان کے ہاتھ میں مقبولیت کے ساتھ زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اندیشہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر جانے والے تمام رہنما جیل یاترا کے بعد ایسا کررہے ہیں اور یہ سب کچھ واضح طور پر ایک دباؤ کے زیر اثر اور انتہائی مصنوعی لگ رہا ہے۔ جس کا کوئی بامعنی تعلق 9؍مئی سے پیدا نہیں کیا جارہا ۔