منشیات فروشوں کیخلاف مہم سے پولیس کی چاندی
شیئر کریں
حکومت سندھ کی طرف سے منشیات فروشوں کے خلاف شروع کی گئی مہم سے پولیس کی چاندی ہو گئی ہے، نمائشی چھاپہ مار کاروائیوں کے دوران بیگناہ، منشیات کے عادی یا معمولی کاروبار کرنے والوں کو گرفتار کر کے خانہ پری کی جا رہی، جبکہ منشیات کے سپلائرز اور بڑے منشیات فروشوں سے سودی بازی کرنے اور بھتوں میں اضافے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔صوبائی سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی طرف سے منشیات کے ناسور کے خلاف صوبے کی سطح مہم کا عمومی طور پر تمام عوامی حلقوں نے خیرمقدم کیا ہے لیکن اس پر جس طرح عمل ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی کافی شکایات ہیں حکومتی سیاسی یا بیورو کریسی میں اعلی سطح پر اثر رسوخ رکھنے والے وائن شاپس اور منشیات کے اڈوں کے مالکان اب بھی محفوظ ہیں سینئر صوبائی وزیر کو اس پر بھی توجہ دینی چاہئے ان کیحلقہ انتخاب تحصیل دیہی ٹنڈوجام پر بھی اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ، سندھ بھر میں مختلف نوعیت کی نشہ اوراشیا کا زہر گلیوں محلوں تک پھیلا ہوا ہے مین پوری گٹگا چرس افیون ہیرویں ائیس ، دیسی اور مختلف اقسام کی شراب کے ہر ضلع سینکڑوں چھوٹے بڑے اڈے قائم ہیں بچے نوعمر، جوان ہر عمر کے ہزاروں غریب اور متوسط طبقات کے ہزاروں افراد اس ماحول اور منشیات کی عام دستیابی کی وجہ سے نشے کے عادی ہیں اور اپنی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں لیکن پولیس ایجسائز پولیس اینٹی نارکوٹک فورس سمیت درجن بھر ادارے انسداد منشیات کے لئے قائم ہیں مگر ان کی مدد اور بھتہ خوری سے ہی منشیات کا کاروبار چمکتا آ رہا ہے جب بھی انسداد منشیات کی کوئی مہم شروع جاتی ہے اس کا نتیجہ منشیات کے نرخوں اور بھتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے کچھ لوگوں کو خانہ پری کے لئے پکڑا جاتا ہے ان سے کچھ مٹیریل بھی برامد کیا جاتا ہے جب کہ کچھ بے گناہوں کو پرانے حساب کتاب یا بھتوں کی وصولی میں رکاوٹ بننے کی وجہ سے پولیس ملوث کر کے کارکردگی کا ریکارڈ بنا لیتی ہے کچھ منشیات فروشوں کو پکڑا بھی جاتا ہے تو ان کے خلاف مقدمات ایسے بنائے جاتے ہیں کہ سودے بازی کی گنجائش رہتی ہے اور پھر وہ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں برسوں میں بھی مقدمات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، سٹی، لطیف آباد قاسم آباد اور تحصیل دیہی میں منشیات کے سینکڑوں ہیں مین ہوری گٹکے کے کارخانے اور شراب کی بھٹیاں کھلے طور پر چلتی ہیں پو لیس اور قانون کے نفاذ کے دیگر اداروں کی معاونت یا نااہلی و چشم پوشی کے بغیر منشیات کا کوئی اڈہ کام نہیں کر سکتا،ہر ضلع میں منشیات کے اڈوں کارخانوں سے ماہانہ کروڑوں کے بھتے وصول کئے جاتے ہیں اور یہ رقم نہ صرف پولیس اور منشیات کے تدارک کے ذمہ اداروں خفیہ اداروں کریمنل گینگز میں تقسیم ہوتی ہے بلکہ حکومتی ذمہ دار سرکاری بااثر سیاسی افراد منتخب نمائندے طاقتور سماجی لوگ اور میڈیا کے بہت سے افراد بھی اس سے مستفیذ ہوتے ہیں ،قانون موم کی ناک کے طور پر کام کرتا ہے منشیات کے کیسز کی پراسیکیوشن میں شامل افراد بھی سودے بازی کر لیتے ہیں جس کے باعث عدالتوں سے بڑے منشیات فروشوں کو سزا نہیں ہوتی کبھی کبھار ضرورت کے کچھ کارندے ہی تختہ مشق بنتے ہیں اس لئے منشیات کے خلاف مہم ہمیشہ بے سود ثابت ہوتی ہے اور چند ہفتے ہیں پھر حالات معمول پر آ جاتے ہیں اب بھی یہی صورت نظر آ رہی ہے۔