میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاسی جماعتوں کی گولہ باری

سیاسی جماعتوں کی گولہ باری

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستانی دنیا کی انوکھی قوم ہیں‘ یہ نواز نے پر آئے تو پہاڑوں سے بلند خطائیں معاف کردیں اور کسی کو اقتدار سے باہر کرنا ہوتو چینی کی قیمت میں چار آنے کا اضافہ بھی برداشت نہ کریں۔ خواجہ ناظم الدین جیسے شریف وزیر اعظم کو”قائد قلت“ کا خطاب دے ڈالیں اور اس کی مٹی پلید کردیں۔ شاید اسی کم فہمی کے سبب پاکستان جیسا وسائل سے مالا مال ملک غریب اور پسماندہ ملکوں کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ 2013ءکے عام انتخابات سے قبل اس قوم کے نزدیک پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کرپٹ صدر مملکت تھے اور قوم ان سے نجات کے لیے بے چین تھی ۔ چار سال گزرنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے یہ درجہ حاصل کرلیا ہے اور یہی قوم لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ چار سال تک ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے والے آصف علی زرداری بھی بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں کہ یہ ”بے ننگ ونام“ ہے‘ اسے اقتدار سے باہر کرو۔ یہ استعفیٰ دے وہ فرماتے ہیں”شریفوں کا نام و نشان مٹادیں گے۔ میاں صاحب کو گھر بھیجیں گے۔ وہ اپنے گھر نہیں دوسرے گھر جائیں گے۔ انہیں لانڈھی جیل میں کھانا بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔“
سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کیخلاف کرپشن کے الزامات کی مزید تحقیقات کے لیے 60دن دینے کے بعد بھی نا اہلی کی تلوار وزیر اعظم کے سر پر لٹک رہی ہے۔ آئندہ دو ماہ کے دوران وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے ماتحت کام کرے گی جس میں حکومت کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ قطری خط کو پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے میں دو ججوں جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو امین اور صادق تسلیم نہیں کیا ہے۔ جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ شریف خاندان کے لیے مسلسل دو ماہ تک میڈیا ٹرائل بھی سخت بدنامی کا باعث بنے گا۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ شوگر ملزکا کیس بھی دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے جس میں قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ اور میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کا اعتراف کرچکے ہیں۔ یہ تحقیقات 45دن میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقدمہ کے جن تین ججوں نے دو ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے مزید تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کے وکیل کی شہادتوں سے عدم اتفاق کیا ہے‘ منی ٹریل کا سوال بھی بدستور حل طلب ہے۔ جے آئی ٹی کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کا دائرہ دوسرے ملکوں تک وسیع کرسکتی ہے۔ پانچوں جج اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں نے جھوٹ بولا ہے جس کے بعد میاں نواز شریف قومی اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں رہے ہیں لہٰذا وہ وزیر اعظم بھی نہیں رہ سکتے۔ قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس اپنی اور خاندان کی عزت بچانے اور جے آئی ٹی کے روبرو پیشی سے بچاو¿ کا اب ایک ہی راستہ باقی بچا ہے۔ وہ یہ کہ وہ صدر مملکت اسے اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان کرادیں۔ ان حلقوں کے مطابق 30 اگست کے آس پاس عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جمعہ کو ”گو نواز گو“ تحریک کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اس تحریک کی گونج میں اس کی اپنی قیادت پر کرپشن کے الزامات کو دفن کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ 2013ءکے بعد ملکی اقتدار کے ساتھی اب تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔
انقلابِ زمانہ دیکھیے کہ آصف زرداری جب صدر مملکت تھے تو وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف انہیں ہتھکڑیاں پہنانے کی بات کرتے تھے اور آج آصف زرداری پاک پوتر ہوکر ان کے بھائی میاں نواز شریف کو ہتھکڑی بکف دیکھنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کی پارٹی نے”گو نواز گو“ تحریک بھی شروع کردی تھی سندھ کے تمام وزراءاور ارکانِ اسمبلی و پارٹی عہدیداران سے کہا گیا ہے کہ وہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں وفاقی حکومت کے خلاف دھرنے دیں اور گیس‘ بجلی‘ پانی کی عدم دستیابی کا شوربرپا کریں۔ وفاق کے خلاف تحریک چلائیں جس کی مبینہ پالیسیوں سے سندھ کے عوام میں شدید احساس محرومی پیدا ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی ایک جانب سندھ میں احساس محرومی کا شور کرکے وفاق اور پنجاب میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہتی ہے اور دوسری طرف رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کرکے اس پیرا ملٹری فورس سے بلاول ہاو¿س‘ گورنر اور سی ایم ہاو¿س سمیت صرف 23مقامات پر چوکیداری کا کام لینا چاہتی ہے۔ سندھ حکومت رینجرز کو چھاپوں اور گرفتاریوں کا اختیار دینا چاہتی تھی اس سے جیالوں اور بد عنوانیوں میں مصروف سرکاری اہلکاروں میں ”خوف و ہراس“ پھیلتا ہے اور وہ سرکاری فنڈز پر مکمل دلجمعی کے ساتھ ہاتھ مارنے سے ہچکچاتے ہیں کہ مبادا کہیں دھرنہ لیے جائیں۔ سندھ حکومت کو ایف آئی اے اور نیب سے بھی یہی شکایت ہے۔ کافی کھینچاتانی کے بعد ہفتہ کو مزید 90دن کے لیے رینجرز کو اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ سندھ سرکار ان تینوں وفاقی اداروں کی عملداری اور خود مختاری سے پریشان ہے۔ اس لیے وفاق کے خلاف نئی جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ سندھ میں آصف زرداری کی پارٹی کے لیے دو نئی پریشانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جہاں با اثر وڈیروں اور سرداروں کو پارٹی میں شریک کرنے کے لیے کوشاں ہیں وہاں پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے چھاتے کھول دیے ہیں۔ عمران خان نے دادو میں کامیاب جلسہ کیا ہے جہاں سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی اور سردار یار محمد رند نے ”ووٹ پاور“ کا مظاہرہ کیا ہے۔ آصف علی زرداری کی کامیاب حکمت عملی یہ ہے کہ سندھ میں مخالفین کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خصوصی روابط کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔ پیپلز پارٹی نے سانگھڑ کی نشست پی ایس 81پر جام مدد علی کی کامیابی کی شکل میں فتح حاصل تو کرلی ہے لیکن یہ سیٹ جام خاندان کا آبائی حلقہ شمار ہوتا ہے۔ 1970ءکے عام انتخابات میں یہاں سے جام صادق علی کامیاب ہوئے تھے جو بعد ازاں سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ ان کے علاوہ قومی اسمبلی کی نشست پر جام معشوق علی کامیاب ہوئے اور خود جام مدد علی اس حلقہ سے چوتھی بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔وہ فنکشنل مسلم لیگ میں تھے اور پارٹی چھوڑ کر آصف زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ پارٹی بدلنے کے باعث یہ نشست انہوں نے ہی خالی کی تھی۔ یہ حلقہ محمد خان جونیجو کے حوالے سے بھی مشہور رہا ہے جو 1985ءمیں ایم این اے منتخب ہوکر وزیر اعظم بنے تھے۔ سندھ کے انتخابات‘ شخصیات کے گرد گھومتے ہیں۔یہاں پارٹی نظریات یا سیاسی فلسفہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ جئے بھٹو کا نعرہ لگاکر ووٹ حاصل کرنے کی پالیسی 1970ءسے رواں دواں ہے۔ 47سال گزر گئے ووٹ دینے والوں نے ایک لمحہ بھی ٹھہر کر یہ نہیں سوچا ہے کہ اس نعرے کی بنیاد پر ووٹ لینے والوں نے سندھ کے شہروں اور دیہاتوں کی بنیادیں ڈھا دی ہیں۔ روزگار‘ تعلیم اور صحت تو دور کی بات ہے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستانی عدلیہ کی کتابوں میں ایک”لاءآف لیشز“(کوڑوں کا قانون) بھی درج ہے۔ اس قانون کے تحت ہر وہ شخص بھی سزا وار ہے جو ظلم و زیادتی اور نا انصافیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ یہ آواز 22 اگست سے قبل والی متحدہ قومی موومنٹ کے بطن سے جنم لینے والی شہری سندھ کی تین جماعتوں پاک سرزمین پارٹی (مصطفی کمال اور انیس قائمخانی) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان(ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان) اور مہاجر قومی موومنٹ پاکستان (آفاق احمد) نے اٹھائی ہے جو بالخصوص کراچی کے مسائل اور سندھ حکومت کے تسلط کے خلاف دھرنے دے رہے ہیں اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ان تینوں جماعتوں نے شہری مسائل کے حل کے لیے جدوجہد پر اتفاق کیا ہے۔ اگر اندرون سندھ بھی مسائل کے حوالے سے اور لوٹ مار‘ کرپشن کے خلاف کوئی بڑی اور مو¿ثر تحریک جنم لے تو 2018ءکے عام انتخابات میں 1970ءجیسا کوئی بڑا”اپ سیٹ“ ہوسکتا ہے جس کی طاقت عام عوام ہوں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں