یوم ارض۔۔۔عوام اور حکومت کی ذمہ داریاں
شیئر کریں
پوری دنیا کی طرح گزشتہ روز پاکستان میں بھی یوم ارض منایاگیا،22 اپریل 1970 ءکو امریکہ میں پہلی بار زمینی ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ”یومِ ارض“ منایا گیا تھا جس کی یاد میں ہر سال 22 اپریل کا دن ”عالمی یومِ ارض“ (ارتھ ڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے۔یہ دن منانے کامقصد اہل زمین کو کرہ ارض کو آلودگی سے پاک رکھ کر قابل رہائش بنائے رکھنے کی ضرورت سے آگاہ کرنا اورانہیں اس زمین کے حقوق سے آگاہ کرنا ہے جس پر وہ آرام سے زندگی گزارتے ہیں اور جس کاسینہ چیر کراپنے لیے پانی اور خوراک اور معدنیات حاصل کرتے ہیں، اس لیے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کسی ایک دن کو عالمی یومِ ارض کے طور پر منانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سال کے باقی تمام دنوں میں زمین اور اِس کے ماحول کو اہمیت ہی نہ دی جائے، یا یہ سوچ لیا جائے کہ ماحول کا تحفظ صرف حکومتوں ہی کی ذمہ داری ہے۔ دیگر تمام جانداروں سمیت یہ سیارہ زمین ہمارا، انسانوں کا گھر بھی تو ہے اور جس طرح ہم اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح زمین کے ماحول کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنا بھی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔بات صرف رسمی بیان کی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ زمین اِس پوری کائنات میں ایک منفرد اور نایاب سیارہ ہے۔ سورج سے اِس کا فاصلہ، اِس کی کمیت، اِس کی ساخت، اِس پر مائع حالت میں موجود وافر پانی، حیات بخش کرہ ہوائی، ٹھوس سطح، اپنے مدار پر سیارہ زمین کا جھکاو¿ اور اِس کے نتیجے میں بننے والے موسم، ان گنت اقسام کی زندگی اور اسی طرح کے سیکڑوں عوامل کی بیک وقت موجودگی سیارہ زمین کو پورے نظامِ شمسی ہی میں نہیں بلکہ پوری کائنات میں منفرد ترین سیارہ بناتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ تحفظِ ماحول کے لیے قوانین اور پالیسیاں بنانا حکومتوں کا کام ہے لیکن ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دینا بھی دراصل غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔بہت سارے کام ایسے ہیں جنہیں ہم خود کرسکتے ہیں اور جنہیں کرنے کے لیے کسی پالیسی اور قانون کی ضرورت بھی نہیں۔ اور تو اور، اِن میں سے بیشتر کام ایسے ہیں جنہیں کرنے کے لیے کسی بہت بڑے سرمائے یا غیر معمولی محنت کی بھی ضرورت نہیں بلکہ سوچنے کے انداز میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر انہیں انجام دیا جاسکتا ہے۔ البتہ انہیں مستقل مزاجی ضرور درکار ہے کیونکہ اِن کاموں کے بیشتر نتائج برسوں بعد ہی ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں ۔ ماحول کو آلودگی سے بچانے یا آلودگی کی سطح کم سے کم کرنے کے لیے بعض ایسے چھوٹے چھوٹے فعل ہیں جن پر عمل کرکے ہر ایک فرد اِس سیارہ زمین کو ایک محفوظ جگہ بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی قریبی جگہ جانا ہو تو موٹر سائیکل یا کار کے بجائے سائیکل استعمال کیجیے اور اگر ہمت ہو تو پیدل ہی چلے جائیے۔دفتر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کیجیے۔موٹر سائیکل ہو، کار ہو یا کسی اور قسم کی گاڑی، اِن کے انجن کی سروس کرواتے رہیے تاکہ یہ ایندھن کا بہتر استعمال کریں۔ اِس تدبیر پر عمل کرکے بھی آپ نہ صرف اپنے بجٹ کا بلکہ ماحول کا بھی بہت بھلا کرسکتے ہیں۔معمول کے کام کاج کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ گھر کا ہر فرد علیحدہ علیحدہ کمرے میں بیٹھے بلکہ یہ کام ایک ہی جگہ بیٹھ کر بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ایک جگہ بیٹھنے کے نتیجے میں روشنی اور ہوا کے لیے کم بجلی کی ضرورت پڑے گی اور یہ بچت جہاں آپ کی جیب کو فائدہ پہنچائے گی وہی ماحول کے لیے بھی مفید ہوگی۔اگر ممکن ہو تو گھر میں خشک اور نمی والا کچرا ڈالنے کے لیے الگ الگ ڈبے (ڈسٹ بن) رکھیے کیونکہ اِن کی علیحدہ علیحدہ تلفی اور ری سائیکلنگ زیادہ آسان ہوتی ہے۔پودے لگائیے اور اگر حالات اجازت دیں تو زندگی میں کم از کم ایک پودا اِس طرح ضرور لگائیے کہ وہ نشوونما پاتے ہوئے آخرکار ایک درخت بن جائے۔ یہ درخت جہاں ماحول کو فائدہ پہنچائے گا وہیں آپ کے لیے ثواب کا باعث بھی بنے گا۔ اہلِ کراچی کو اِس تجویز کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے کیونکہ اِس شہر میں پچھلے 20 سال کے دوران بڑی بے رحمی سے لاکھوں درخت کاٹے جاچکے ہیں جن کے نتیجے میں آج شہر کی فضائی آلودگی قابو سے باہر ہوچکی ہے۔غذا میں بھی سبزیوں اور دالوں پر زیادہ زور رکھیے اور اگر صاحبِ حیثیت ہیں تب بھی ہفتے میں ایک روز ہر قسم کے گوشت کا ناغہ ضرور کیجئے کیونکہ سائنسی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ گائے، بھینس اور بکری وغیرہ کی فارمنگ سے ماحول کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے جبکہ سبزیوں، پھلوں اور دالوں کا استعمال اگر ایک طرف آپ کی صحت کے لیے بہتر ہے تو دوسری جانب انہیں اگانے کے نتیجے میں ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگرچہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ماحول کی آلودگی ختم کرنے یا اس میں کمی کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے اور آلودگی میں کمی کے حوالے سے ان کی معاونت بھی کرے لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ آلودگی میں کمی اور شہریوں کو صاف ہوا میں سانس لینے اور پینے کاصاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرے،یہ دن منانے کے لیے صرف چند بڑے پرتعیش ہوٹلوں اور آڈیٹوریمز میں سیمینارز کے انعقاد اور لمبی چوڑی تقریریں کرکے اپنی تصاویر اخبارات میں شائع کرانے اور مختلف چینلز پر نشر کرانے سے آلودگی میں نہ تو کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ اس مسئلے کی سنگینی کا خاتمہ ممکن ہوسکتاہے، اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم کراچی سمیت ملک کے ہر شہر اور گلی کوچوں میں لگے ہوئے کوڑے کرکٹ کے انبار ختم کرنے پر توجہ دے،لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور درختوں کی بے محابہ کٹائی کے بجائے حقیقی معنوں میں شجر کاری پر توجہ دے اور صرف تصاویر بنوانے کے لیے پودے لگانے اور اس کے بعد اس کی جانب سے بے خبرہوجانے کے بجائے ایسا اہتمام کرنے پر توجہ دے کہ ہر لگایا ہوا پودا تناور درخت کا روپ دھا ر سکے، اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ شہروں میں سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے درختوں کی بلاضرورت کٹائی کاسلسلہ فوری طورپر بند کرائے اور کچرے کو مخصوص جگہ پر ٹھکانے لگانے کو یقینی بنائے اور جگہ جگہ کچرے کو آگ لگانے کاموجودہ سلسلہ فوری طورپر ختم کیاجائے،اور کچرے کو مخصوص جگہ لے جانے سے بچنے کیلئے کچرے کو جگہ جگہ آگ لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں کی جاتی ماحول کی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا۔