میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غزہ سے توجہ ہٹ جائے !!

غزہ سے توجہ ہٹ جائے !!

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۴ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

مجھے یاد ہے جب کراچی میں ہنگامے ہوتے تو نمائش چورنگی اور گرومندر کے راستے بند کر دیے جاتے تو پورے شہر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ بندرگاہ بند ہونے کے باعث کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا جس کے نتیجے میں ملک کو معاشی طور اربوں کا نقصان پہنچتا تھا۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے غزہ میں ہونے والی تباہ کاریوں کے اثرات پور ی دنیا محسوس کرے گی۔ یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر سے گزرنے والے مال بردار تجارتی بحری جہانوں پر حملوں نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ حوثی باغی یمن کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے بعد حوثی باغیوں نے اسرائیل سے آنے اور وہاں سے جانے والے تجارتی جہازوں پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر بہت سی بڑے کارگو کمپنیاں اپنے جہازوں کا رخ موڑنے یا انھیں روکنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بحری جہازوں کو بحیرہ احمر میں ہونے والے حملوں سے بچانے کے لیے متبادل راستوں سے گزرنے پر مجبور کیا گیا تو پیٹرولیم مصنوعات سمیت الیکٹرانک آلات اور ٹرنیر زجیسی روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ بحیرہ احمر کے جنوبی سرے پر واقع آبنائے باب المندب میں تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کی جانب سے حملوں میں اضافے کے بعد جہازرانی کی بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے بہت سے جہازوں کو اس راستے سے لے جانے سے گریز کرنا شروع کر دیا ہے ۔ بحیرہ احمر کا یہ راستہ عالمی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ کیونکہ ایک اندازے کے مطابق فی الحال دنیا کی تجارت کا 12 فیصد حصہ بحیرۂ احمر کے شمال سرے پر موجود نہر سوئیز سے گزرتا ہے اس کے ساتھ وہاں سے گزرنے والے سامان تجارت میں دنیا کے 30 فیصد کنٹینرزبھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں اضافے کے بعد بحیرہ احمر کے راستے شپنگ معطل کرنے کا اعلان کرنے والی کمپنیوں میں اب تیل کی بڑی کمپنی برٹش پیٹرولیم بھی شامل ہوگئی ہے۔ اس کے بعد دنیا کی بڑی بڑی نامور شپنگ کمپنیوں نے اپنے جہازوں پر یہ راستہ اپنانے پر پابندی لگا دی ہے ۔ حوثی باغیوں نے اکتوبر کے اوائل میںیہ حملے غزہ میں اسرائیلی حملوں کے رد عمل میں کیے کیونکہ حوثیوں نے حماس کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ بحیرہ احمر تیل اور مائع قد رتی گیس کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی نقل و حمل کے لیے دنیا کی اہم ترین گزرگاہوں میں سے ہے ۔ کنسلٹنگ کمپنی ایس اینڈپی گلوبل مارکیٹ نے انٹیلی جنس کے حالیہ تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ایشیا اور خلیج سے یورپ ،مشرقی وسطی اور شمالی افریقہ میں درآمد کی جانے والی 15 فیصد اشیا ء بحیرہ احمر کے راستے بھیجی جاتی ہیں۔ ان میں سے 21.5 فیصد ریفا ئنڈ تیل اور 13 فیصد سے زیادہ خام تیل مصنوعات شامل ہیں۔ حوثی باغی آبنائے مندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنارہے ہیں جسے ”گیٹ آف ٹیئرز” ہے یعنی اشکوں کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ 32 کلو میٹر چوڑا چینل ہے اور یہ جہاز رانی کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے ۔ موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکی دفاع لائیڈ آسٹن نے 40 سے زیادہ ممالک کے وزرا ء کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی اور مزید ممالک سے بحیرہ احمر میں جہازوں کی سلامتی کی کوششوں میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ حوثیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے آبنائے باب المندب کو استعمال کرنے کے بجائے اب بحری جہازوں کو جنوبی افریقہ سے گزرنے والا طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور اس طرح ممکنہ طور پر اس سفر میں تقریباً دس دن کا اضافہ ہوگا اور ان پر لاکھوں ڈالر لاگت آئے گی۔ اس سے صارفین کی اشیاء پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا۔کیا آپ کو یاد ہے جب 28 مارچ 2021 کو نہر سوئز کے بیچ 400 میٹر لمباجہاز پھنس گیا تھا۔ اس بحری جہاز کے پھنسنے سے نہر سوئز جو کہ دنیا کے مصروف ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے ، بری طرح بلاک ہو گئی تھی ۔جہاز کے پھنس جانے سے ہر روزے 9.6 ارب ڈالرز کا سامان رکا رہا جو کہ ایک گھنٹے میں 40کروڑ ڈالرز کے برابر تھا۔ سوئز کینال میں جہاز پھنس جانے کے باعث پہاڑ نما 300 بحری جہاز اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہے۔دنیا بھر سے جہاز نکالنے کی ماہر ٹیم نے سوئز کینال سے چھ دن بعد جہاز نکالا ۔ تصور کریں صرف6 دنوں کے نہر سوئز بند ہونے کے باعث 300 بحری جہازوں کو سمندر میں کھڑا ہونا پڑا جو کہ شپنگ کی دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک ہی واقعہ ہے ۔
12جنوری کو امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم پر امریکی بحریہ نے امریکی پرچم والے جہازوں کو خبردار کیا کہ وہ ابتدائی فضائی حملوں کے بعد اگلے 72 گھنٹوں تک بحیرہ اور خلیج عدن میں یمن کے آس پاس کے علاقوں سے نکل جائیں۔ یہ انتباہ ایسے وقت آیا جب یمن کے حوثیوں نے جوابی کاروائی کا عزم ظاہر کیا جس سے غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے پہلے ہی گھرے ہوئے خطے میں وسیع تر تنازع کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔ امریکی فوج اور وائٹ ہاؤس کے حکام نے کہا کہ انھیں توقع ہے کہ حوثی حملہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس ہفتے کے اوائل میں کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں صدر جو بائیڈن نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکا نے انتہا پسندوں سے لڑنے اور سعودی قیات والے اتحاد کے لیے فوجی حمایت جاری رکھنے کے مقصد سے یمن میںفوجی تعینات کیے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ حوثی امریکا اور برطانیہ کے حملوں کے نتیجے میں بھر پور جواب دیں گے جس سے بحیرہ ٔ احمر کے بند ہونے کا امکان ہے۔ اس صور ت ِ حال میںبحری جہازوں کا متبادل راستہ نہر سوئز ہے جو بحری جہازوں کا اتنا زیادہ ٹریفک نہیں سنبھال سکتا۔
قارئین کرام مضمون کے ابتدا میں نمائش چورنگی اور گرو مندر کی مثال اس بنیاد پر دی گئی ہے کہ میری زندگی کے چار سال بحری جہازوں میں نوکری کرتے ہوئے گزرے ہیں۔ میری نظر میں نہر سوئز کی حیثیت نمائش چورنگی کی مانند ہے جبکہ بحیرۂ احمر گرو مندر کی طرح ہے۔ یہ دونوں سمندری راستے سمندر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان راستوں کے ذریعے بحری جہاز کی مدد سے کارگو کو ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچایا جاتا ہے۔ حوثی حملوں کے نتیجے میں اگر جنگ شدت اختیار کر گئی اور بحیرہ احمر اور نہر سوئز پر بحری جہازوں کا ٹریفک بڑھنے کی وجہ سے کوئی حادثہ رونما ہو گیا تو عالمی سطح پر کارگوں کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ غزہ میں تباہ کاریوں کے نتیجے میں
یمن پر بڑی طاقتوں کے حملے اور اس دوران ایران اور پاکستان کے در میان جنگ چھڑ جانے کا اندیشہ ہے جس میں اسرائیل اور بھارت کا کردار ہو سکتا ہے۔ اس عالمی سطح پر بگڑتی صورتحال کے پیچھے ایک مقصد پوشیدہ ہے کہ دنیا کی توجہ غزہ میں ہونے والی تباہ کاریوں سے ہٹ جائے ۔ چند روز قبل ایک صحافی کے سوال پر نتن یا ہونے کہا تھا کہ ہمارے لیے پہلا خطرہ ایران ہے جبکہ دوسرا پاکستان ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کر ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ پر اُکسانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں