حق دو کراچی کو
شیئر کریں
سندھ میں نافذ العمل نئے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا بعنوان ’’حق دو ،کراچی کو ‘‘سندھ اسمبلی کے باہر مستقل مزاجی سے گزشتہ تین ہفتوں سے ابھی تک پوری عوامی و احتجاجی توانائی کے ساتھ جاری ہے اور اَب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم کی جانب سے د ھرنے کی اگلی منزل ِ مقصود وزیراعلیٰ ہاؤس بتائی جارہی ہے ۔اس احتجاجی دھرنے کی سب سے خاص بات یہ اس میں پیش کیے جانے والے اکثر مطالبات اوربیشتر مقاصد سے کسی فرد واحد کو ذرہ برابر بھی اختلاف کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی ۔حتی کہ پیپلزپارٹی جس کی صوبائی حکومت کے خلاف یہ دھرنا سندھ اسمبلی کے باہر دیا جارہا ہے ، اُس کے اپنے کئی وزراء بھی مختلف پریس کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں کھلے دل سے بارہا یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ’’ واقعی گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی شہر کے ساتھ بے شمار انتظامی اور سیاسی زیادتیاں کی گئی ہیں، جن میں تھوڑی بہت کوتاہیاں یقینااُن کی حکومت سے بھی ضرور سرزد ہوئی ہوں گی‘‘۔ یاد رہے کہ کراچی کے ساتھ والی ہونے والی تمام تر زیادتیوں کا ازالہ کرنے کا نعرہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی لگاتی ہے ، بس ! ذرا اپنے سیاسی انداز میں ۔
دراصل سندھ حکومت کراچی کی بدحالی اور پامالی سے ہرگز انکاری نہیں ہے، لیکن وہ شہر کی تمام تر ابتری کا ذمہ دار خود کو نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو قرار دیتی ہے اور ساتھ ہی وہ یہ بچگانہ سی خواہش بھی رکھتی ہے کہ یہ ہی موقف سندھ کی ہرسیاسی جماعت اُس کی پیشوائی میں اختیار کرلے۔ یعنی اگر آج جماعت اسلامی کراچی کی قیادت اور دھرنے کے شرکاء سندھ اسمبلی کے باہر ہونے والے احتجاجی دھرنے میں سندھ حکومت کو ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے وفاقی حکومت کو کراچی شہر کی شکست و ریخت کا واحد ذمہ دار قرار دینا شروع کردیں تو یقین مانیں! ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر پاکستان پیپلزپارٹی اپنی تمام تر سیاسی قوت اور سندھ حکومت اپنی بھرپور انتظامی طاقت کے ساتھ جماعت اسلامی کے دھرنے میں شامل ہوجائے گی اور پھر وفاقِ پاکستان کے خلاف ایک ایسا یادگار اور تاریخی احتجاجی دھرنا دیا جائے گا کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر ریاستِ پاکستان کے پاس سندھ حکومت کو کراچی شہر کی بحالی اور تزئین آرائش کے لیے اربوں روپے کے خطیر فنڈز فوری طور پر جاری کرنے کے سوا کوئی دوسری راہ فرار باقی نہیں بچے گی۔
مگر مصیبت یہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی کراچی ، حافظ نعیم ، سندھ حکومت کی جانب سے منظور شدہ نئے بلدیاتی قانون کو شہر کے ساتھ ماضی میں روا رکھی گئی ہر انتظامی و سیاسی زیادتی سے زیادہ مہلک اور خطرناک سمجھتے ہیں ۔ چونکہ یہ بلدیاتی قانون پیپلزپارٹی کی حکومت نے منظور کروایا ہے ۔لہٰذا سندھ اسمبلی کے باہر ہونے والے احتجاجی دھرنے میں اُن کا پیپلزپارٹی کی قیادت سے بنیادی مطالبہ نئے بلدیاتی قانون کو واپس لینے کا ہے اور اس ایک مطالبہ کے علاوہ امیر جماعت اسلامی کراچی، اپنے ہر مطالبے پر بات چیت کے بعد لچک اور نرمی کا مظاہرہ کرنے کے لیے پوری طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن سب سے پہلے سندھ حکومت کو نیا بلدیاتی قانون واپس لینا ہوگا۔جس کی لیے بظاہر پیپلزپارٹی کی قیادت بالکل بھی تیاردکھائی نہیں دیتی ۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کے اکثر رہنما سمجھتے ہیں کہ نئے بلدیاتی قانون پر پیچھے ہٹنے سے صوبہ بھر میں پیپلزپارٹی کی سیاسی کمزوری اور سندھ حکومت کی نااہلی کا تاثر اُجاگر ہوگا اور یہ صورت حال پیپلزپارٹی کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول ہوگی ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت ایک جانب تو سندھ اسمبلی کے باہر ہونے والے دھرنے کے شرکاء سے اپیل کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ’’ نئے بلدیاتی قانون کے خلاف اُن کا احتجاج ریکارڈ ہوگیا ہے ،لہٰذا اَب انہیں دھرنا ختم کرکے واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جانا چاہیے‘‘۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین جناب بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت کے خلاف 27 فروری کے متوقع لانگ مارچ کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے اور مؤ ثر لائحہ عمل مرتب کرنے میں دن رات مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر سوئے اتفاق سے پیپلزپارٹی کے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف متوقع لانگ مارچ سے پہلے پہلے سندھ میں نئے بلدیاتی قانون کے نفاذ کا معاملہ حل نہیں ہوا تو ملکی سیاسی منظرنامہ کی صورت حال کچھ عجیب و غریب اور انتہائی مضحکہ خیز بن جائے گی۔یعنی بیک وقت پیپلزپارٹی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی لانگ مارچ کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کررہی ہوگی ۔جبکہ اُسی دوران سندھ بھر میں اپوزیشن جماعتیں سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج نظر آرہی ہونگیں۔
سب سے بڑا لطیفہ یہ ہوگا کہ جن سیاسی جماعتوں کی احتجاجی آواز میں آواز ملا کر پیپلزپارٹی تحریک انصاف کا اقتدار گرانے کے لیے لانگ مارچ نکال رہی ہوگی عین اُس کی وفاقی سیاست میں حلیف یعنی ہم نوالہ و ہم پیالہ سیاسی جماعتیں سندھ حکومت کے خلاف ہونے والے مختلف احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہورہی ہوں گی ۔ سیاسی نظریات و مفادات کا ایسا کھلاتضاد شاید ہی کبھی چشم فلک نے ملاحظہ کیا ہوگا، جس کا مظاہر ہ ہم آنے والے ایام میں ممکنہ طور پر دیکھ سکتے ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت جن جائز سیاسی و عوامی حقوق کے حصول کے لیئے سڑکوں پر نکلنا اپنا جمہوری فرض منصبی سمجھتی ہے ، مگر جب ایسے ہی مطالبات منوانے کے لیے کوئی دوسری سیاسی جماعت اُس کے خلاف احتجاج کے لیئے نکل پڑے تو اُسے عدم استحکام ، انارکی اور لسانیت پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے کر بذور انتظامی طاقت کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیاہی اچھی بات ہو اگر ہماری سیاسی قیادت بالغ نظری ثبوت دیتے ہوئے اپنے اور حریفوں کے لیے ایک جیسے سیاسی اُصول و ضوابط مقرر کر لے۔
کیونکہ یہ ہی ایک ایسا آسان سیاسی راستہ ہے جس پر چل کر ہم وطن عزیز پاکستان کو احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا دلواسکتے ہیں ۔واضح رہے کہ اٹھارویں ترمیم کو منظور کروا کر وہ کون سے آئینی وجمہوری اختیارات ہیں جو پاکستان کے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کو حاصل نہیں ہو گئے ہیں ۔ لیکن بدقسمی کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی وزیراعلیٰ چاہے اُس کا تعلق صوبہ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان، گلگت بلتستان یا پھر سرحد سے ہو، وہ اٹھارویں ترمیم سے حاصل شدہ آئینی اختیارات کو نچلی سطح پر کسی بھی صورت منتقل نہیں کرنا چاہتا۔ جب عوامی ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والے افراد بھی عوام کو اُن آئینی اختیارات دینے سے یکسر انکاری ہوجائیں تو تب ہی آئینی و جمہوری اداروں کے باہر ہونے والے احتجاجی دھرنے میں ’’حق دو ،کراچی کو ‘‘ جیسے نعرے سنائی دیتے ہیں ۔ وگرنہ جمہوری دورِ حکومت میں ایسے نعرے لگانے کی عوام کو ضرورت ہی کیوں درپیش ہو ۔
٭٭٭٭٭٭٭