میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرکٹ کا جنازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔قسط1

کرکٹ کا جنازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔قسط1

منتظم
منگل, ۲۴ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے ایک سابق فرسٹ کلاس کرکٹر گزشتہ دنوں ہمارے دفتر میں تشریف لائے، ہمارے ریڈیو پروگرام کے حوالے سے ، جس میں ہم اپنے سامعین کو انفرادی مالیات کے حوالے سے مشورے دیتے پائے جاتے ہیں، وہ کینیڈا میں اپنے مجوزہ مستقبل کے حوالے سے کچھ مالی معاملات کے مشوروں کے طالب تھے،ہم نے حسبِ توفیق ان کے خدشات دور کیے اور کچھ کو بڑھاوا بھی دیا ،اس کے بعد چائے کے کپ پر پرانی یادیں اور ان پر گفتگو چل نکلی۔
عرض کیا بوڑھی گھوڑی لال لگام، یہ عمر کے اس حصے میں ، جب انسان کو جوانی کے دوستوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، آپ کو یہ کیا حماقت سوجھی ہے کہ آپ بدیش پدھار رہے ہیں؟ اس پر وہ گویا ہوئے کہ جو ظلم میرے ساتھ ہوا ہے میں چاہتا ہوں میرے بچوں کے ساتھ نہ ہو، میرا بیٹا بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہاہے، اب آگے میں افورڈ نہیں کر سکتا۔ ابھی اس نے تعلیم بھی مکمل کرنا ہے، میں اپنے موجودہ حالات میں شائد اس کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی برداشت نہ کرسکوں۔ جب کہ کینیڈا میں ایک مقامی کرکٹ کلب سے کوچنگ کی پیش کش آئی تھی، وہ میں نے قبول کرلی ہے۔ سوچتا ہوں اسی بہانے بچے بھی وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گے اور میں بھی زندگی میں کچھ دن سکون کے گزار لوں گا۔
عرض کیا تو کیا بچہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے ذریعے اپنا خرچہ نہیں اٹھا سکتا؟ فرمانے لگے وہ زمانے لد گئے جب فرسٹ کلاس کرکٹ سے کمایا جاتا تھا، اب تو اس سطح پر ’خرچہ ‘ ہوتا ہے۔ اب تو کرپشن اور پیسے کے زور پر کرکٹ ہوتی ہے، پیسے ملتے نہیں بلکہ جیب سے دینا پڑتے ہیں ۔گزشتہ دو دہائیوں میں عامر اور آصف او ر چار پانچ مزید مثالوں کو چھوڑ کر چھوٹے شہروں سے غریب کا بچہ تو کرکٹ میں آہی نہیں سکا اور کرکٹ کی اشرافیہ نے ان دو کا بھی جو حشر کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ہمارے تجسس اور اشتیاق پر مزید گویا ہوئے کہ” سب ڈراما ہے، میں کم از کم لاہور کی دو اکیڈمیوں میں پارٹ ٹائم کوچ رہا ہوں۔ امیر کا بچہ جب اکیڈمی آتا ہے تو اس کے ٹِشن ہی الگ ہوتے ہیں۔ کچھ مہینے کے بعد ہی، جب ابھی کوچ چیخ چیخ کہہ رہا ہوتا ہے کہ بچہ ابھی ’کچا‘ ہے، اس کے ابا جی اپنی سفارش یا پیسے کے زور پر اس کو کسی کلب سے کھلوا دیتے ہیں“۔
کلب ٹیم کے کوچ یا منیجر کو مناسب ادائیگی سے اس بات پر ’قائل ‘ کیا جا چکا ہوتا ہے کہ اگر بچہ بالر ہے تووہ بچے کو تب بالنگ دے گا جب مخالف ٹیم کا کمزور بلے باز سامنے ہو یا پھر وکٹ خراب ہو، اور اگر وہ بلے باز ہو تو اس کو تب بیٹنگ کرنے بھیجا جائے گاجب سامنے ٹیم کا کمزور ترین بالر بالنگ کروا رہا ہو، یوں اگلے پانچ چھ ماہ میں اس کا پروفائل بنایا اور اخبارات میں چھپوایا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسی فارمولے اور رستے کے ذریعے اس کو کسی ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم کی طرف سے کھیلنے اور ملک و قوم کا نام سربلند کرنے کا موقع فراہم کردیا جاتا ہے۔ اور پھر کچھ لوگ اس پورے عمل میں ا س قدر تاک ہو گئے کہ ان کے تین تین بچے بیک وقت قومی کرکٹ میں کھیل گئے ہیں۔
آج کل اس عمل میں ٹی وی چینلز پر بیٹھے نام نہاد کمنٹیٹرز بھی اپنے اپنے ”کلائنٹس “کی پرچیاں لے کربیٹھتے ہیں۔ ایک آدھ سال میںوہ ڈیپارٹمنٹ سے کھیل کر اسی راستے قومی ٹیم میں لینڈ کر جاتا ہے، کیوں کہ ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم کے کوچ کا بہرحال پی سی بی کے اندر تک کوئی نہ کوئی ’چور دروازہ‘ ہوتا ہے اس لیے اگر وہ وہاں سلیکشن ٹیم کے سامنے اس بچے کو فٹ کروا لے تو اس کی ادائیگی الگ ہوتی ہے ورنہ ابا جی کسی اور رستے سے یہ انتظام کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی جب معاملہ لین دین سے ہوتا ہو تو پھر کیا قومی ٹیم والوں کا انتخاب کرنے والوں کے ’اپنے چھوٹے چھوٹے بچے نہیں ہوتے؟“اس نے ہمیں چکرا کے ہی رکھ دیا۔
میں چکرا کر کرسی سے گرنے والے انداز میں کہا ” ایسا نہ کہیں، اتنی اندھی نہیں پڑی ہوئی“۔ اس پر انہوں نے اسی متانت سے فرمایا’اچھا تو ایک سروے کر لیتے ہیں کہ قومی ٹیم میں گزشتہ دو دہائیوں میں کتنے بیوروکریٹوں، کتنے جرنیلوں، امیر وں یا پھر پیروں کے بچے جگہ بنا پائے ہیں؟ موصوف نے ایک ایک کرکٹر کانام لے کر فہرست گنوانا شروع کی تو ہمارے اوسان ہی خطا ہو گئے۔
فرمانے لگے سابق کرکٹرز کا مافیا اپنی جگہ پرالگ سے ہے جو کسی نہ کسی عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں، اور ان میں سے کئی تو بلامعاوضہ کام کر رہے ہیں تو پھر پوچھنا یہ بنتا ہے کہ ان کا پر تعیش لائف اسٹائل کیسے چل رہا ہے جب کہ ان کا کوئی اور معلوم ذریعہ آمدن بھی نہیں؟ ان سابق کرکٹرز میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ شائد ان کی قبریں بھی پی سی بی میں ہی بنیں گی۔ان میں سے بیشتر کے بچے بھی کھیلنے والوں کی صف میں لگے ہوئے ہیں، ہر مافیا کی طرح یہ علاقائیت اور لسانیت کی نفرتیں انگیخت کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی اپنی غیر کھلاڑیوں پر مشتمل بہت ہی موثر اور مضبوط افسر شاہی کا اپنا مقام ہے۔ کوئی بھی حکومت آئے، یا کسی بھی نئے چئیرمین کا تقرر ہو، ان کا اقتدار سدا برقرار رہتا ہے۔ ان کے اپنے بچے بغیر کسی میرٹ کے کرکٹ ٹیم میں آجاتے ہیں۔ بس انہیں ’ٹیسٹ کرکٹر‘ کا ٹھپہ لگوانا ہوتا ہے، اس کے بعد جب بھی پی سی بی کو کسی بھی ’کرکٹ لیگ‘ یا ’کرکٹ کاونٹی‘ کی طرف سے دعوت نامہ آئے تو ان افسران کے بچوں کے نام فارورڈ بھی ہو جاتے ہیں اور چپکے سے پی سی بی کے این او سی بھی جاری ہو جاتے ہیں۔
یہ جو ہر مشکل میچ میں ناکام ہوجاتے ہیں ناں، اس کی وجہ یہی ہوتی ہے، لیکن اس میں سب سے زیادہ ظلم غریب کے بچے پر ہورہا ہے۔ لاہور میں اس قدر ٹیلنٹ ہے کہ کیا بتاو¿ں؟ لیکن یہ جو ہر اتوار کو لاہور کا ہر میدان کرکٹ ٹیموں سے سجا ہوتا ہے ناں، اس کی وجہ جوا ہے۔ کرکٹ پر جوا لگانے کے شوقین سیٹھ لوگ اتوار کو غریب لوگوں کے بچوں کی ٹیموں کو بلواتے ہیں، ان کو کھیلنے پر لگا کر خود ان پر جوا کھیلتے ہیںجو عموماً لاکھوں میں جاتا ہے۔ پورے دن کا میچ کھیل کر ان بے چاروں کے حصے ’ایک اچھا کھانا‘ یا پھر پانچ سو، ہزار کی دیہاڑی ہوتی ہے اور یہ گھر جا کر اسی تھکن کو صحت سمجھ کر بستروں پر گر جاتے ہیں۔
عرض کیا :آپ تو کوچ ہیں منع نہیں کرتے؟ فرمانے لگے ہمیں سامنے یہ جواب ملتا ہے کہ وہ کھیل کی’ خدمت ‘ اور کھلاڑیوں کی ’سرپرستی‘ کر رہے ہیں۔ اس وقت ایک پوری نسل ہے جو ان جوئے بازوں کا شکار ہو چکی ہے، اس لالچ میں ہر ہفتے چھٹی کے دن یہ بچے کسی نہ کسی گراونڈ کا رُخ کر لیتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بچہ مخالف ٹیم کے ہاتھوں بک کر خراب کارکردگی دکھاتے پکڑا جائے تو معاملہ قتل تک پہنچ جاتا ہے، یہ کہہ کر انہوں نے ایک ہی سانس میں کوئی آٹھ کے قریب ایسے بچوں کے نام بتا دیے جن کو قتل کیا گیا تھا، بس اخبار میں اتنی سی خبر چھپتی تھی کہ کرکٹ میچ کے دوران جھگڑا ہوا اور بچہ بیٹ لگنے سے مارا گیا۔
لیکن ان بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، کیوں کہ ان میں کوئی گاڑیوں کی ورکشاپ پر پچاس روپے دیہاڑی پرکام کرنے والا ہوتا ہے اور کوئی کسی دکان پر سیلزمین، یا پھر کسی اور ادارے میںکم از کم تنخواہ پر کام کرنے والا کوئی ’چھوٹا‘۔ یہ وہی بے چارے ہیں جن کو مقامی پولیس جب بھی چاہے،کسی ناکے یا کسی ورکشاپ سے اٹھا کر جعلی مقابلے میں پار کرکے ’القاعدہ‘ برصغیر یا پھر ’لشکر جھنگوی العالمی‘ کا سربراہ قرار دے ڈالتی ہے، اگر کبھی موقع ملے تو گن کر دیکھ لیجئے گا، کوئی چار پانچ درجن لوگ تو اس ضمن میں اسی طرح جعلی پولیس مقابلوں میں پار کیے جا چکے ہیں۔ یہ وہ بے نام و نامراد لوگ ہیں جن کی بعض اوقات لاشیںبھی ان کے ورثاءکو نہیں دی جاتیں، ان کی لاشوں کی تدفین کے لیے حوالگی کے لیے بھی ان کے ورثاءکو سڑک بند کرکے مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
عرض کیا اگر اسی راستے سے گزر کر یہ قومی ٹیم کے کھلاڑی اس اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں تو پھر جوے سے ان کے دامن کیسے آلودہ نہیں ہوں گے۔ تو کہنے لگے پھر پتہ کریں ناں، عامر ، آصف اور سلمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والے لندن کے اس پاکستانی نژاد ’بُکئے ‘ کو پندرہ دن کے اندر ہمارے کون کون سے سپرا سٹار جا کر ملے تھے ، جو ابھی تک قومی ٹیم میں کھیل بھی رہے ہیں؟
دھت تیرے کی
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں