کرنسی کا دھندا 2 ماہ میں 70 فیصد تک گر گیا،مشتبہ مارکیٹ پھیلنے لگی
شیئر کریں
کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ کرنسی مارکیٹ میں کاروبار کا حجم گزشتہ 2 ماہ میں 70 فیصد تک گر گیا ہے، تاہم مشتبہ مارکیٹ نے اپنے آپریشن کو بڑے پیمانے پر پھیلا دیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ڈیلرز نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے کرنسی کے کاروبار کے لیے قانون پر قانون بنائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے تاجروں میں تشویش پائی جارہی ہے۔سیکریٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچہ نے بتایا کہ ’ڈالر اور دیگر کرنسیوں میں سرمایہ کاری غائب ہوچکی ہے جبکہ کاروبار کا حجم گزشتہ 2 ماہ میں 70 فیصد تک گر گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والی گرے مارکیٹ کا کاروبار بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے اور قانونی کاروبار کا 70 فیصد حصہ بھی غیر قانونی مارکیٹ کی جانب منتقل ہوچکا ہے۔
کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ ایکسچینج کمپنیوں میں کمپلائنس آفیسر کو پولیس افسر کی طرح اپنا کام کرنا ہوتا ہے اور ہر ٹرانزیکشن پر اپنے صارف کے حوالے سے رپورٹ بھی کرنا پڑتا ہے۔واضح رہے کہ فائنانشل ایکششن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے رواں سال جون کے مہینے میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا اور ملک کو بلیک لسٹ میں ڈالنے سے قبل حکومت کو وقت دیا گیا تھا کہ وہ مناسب انتظامات کرلیں پاکستان پر پڑنے والے اس دباؤ کے نتیجے میں غیر قانونی اور تشویشناک ٹرانزیکشنز اور صارفین کی شناخت کے لیے کئی قوانین بنائے گئے ہیں۔منی لانڈرنگ پر نظر رکھنے کے لیے بنائے گئے قوانین کی وجہ سے بینکوں کے ذریعے رقم کی منتقلی میں اضافہ دیکھا گیا، رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بینکوں کے ذریعے رقم کی منتقلی میں 12.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ایس ای سی پی اور ایس بی پی کی جانب سے ’اپنے صارفین کو پہچانیں‘ کے نام سے چلائی جانے والی مہم میں تمام بینکوں کو اپنے صارف کی تفصیلات جاننا ضروری قرار دیا گیا۔خیال رہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت 139 ہے جو رواں سال جنوری میں 108 اور اگست میں 123 تھی۔