میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قائد اعظمؒ جمہوری ریاست قائم کرنا چاہتے تھے

قائد اعظمؒ جمہوری ریاست قائم کرنا چاہتے تھے

منتظم
هفته, ۲۳ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

عبدالماجد قریشی
پاکستان بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد قائم ہو اہے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ یہاں اسلامی فلاحی و جمہوری ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ اگر صرف جمہوریت کی بات کی جائے تو ملک کے 80فیصد سے زائد عوام پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی مملکت دیکھنا چاہتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک پاک صاف ذہن کے مالک‘ راست فکر اور راست گو انسان تھے۔ ان کے دل و دماغ میں یہ بات سما گئی تھی برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی دلائی جائے نیز ہندو اکثریت کی غلامی میں جانے سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ مسلمانوں کی ایک ایسی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے جہاں وہ قرآن و سنت کے احکامات و تعلیمات کے مطابق آزادنہ زندگی بسر کر سکیں۔ میں بلاخوف تردید یہ بات کہتا ہوں قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے نظام حکومت جیسا نظام پاکستان میں رائج ہوتے دیکھنا پسند کرتے تھے۔

بابائے قوم پاکستان کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو دین اسلام کے زریں اصولوں پر استوار کر کے دنیا پر ثابت کرنا چاہتے تھے یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیںجس طرح رسول کریم اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں تھے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ان کے خطاب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے وہ پاکستان میں اسلامی معیشت کو رائج دیکھنا چاہتے تھے اور یہاں ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرہ دیکھنے کے آرزومند تھے جس میں غریبوں کو بھی آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے یکساں اور بھرپور مواقع حاصل ہوں۔

بنیادی طورپر قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انھیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انھوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔ قائداعظم کے نزدیک ایک علیحدہ مملکت کا تصور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول کے دیگر مجوزہ راستوں کے بند ہو جانے کے بعد بچ جانے والا واحد اور ناگزیر راستہ تھا۔ ایک بار جب انھوں نے اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا۔ انھوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا مگر ایسا کرتے وقت وہ ایک دلیل ہی کا سامان کر رہے تھے۔ مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ہدف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی۔

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیادپر اور کلمہ طیبہ کے نام پر معروضِ وجود میں آیا ہے اگرچہ قوم کو متفقہ آئین تاخیر سے ملا لیکن 73ء کے آئین میں اقتدار ِ اعلیٰ اللہ کے پاس ہے اور ملک میں قرآن و سنہ کے مطابق قانون سازی کرنے کی دفعات شامل ہیں لیکن حکمرانوں نے ایسی ہی دفعات کو قابلِ عمل بنایا ہے جو ان کے اپنے مفاد میں ہو تی ہیں ۔ جو عناصر پاکستان میں لبرل ازم و سیکولر ازم کی باتیں کرتے ہیں وہ دراصل دو قومی نظریہ اور پاکستان کے قیام کے بنیادی مقاصد و نظریہ سے انحراف کررہے ہیں۔ یہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام پر فائز ددیکھنے کے آرزومند تھے۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے ہم پاکستان کو بانی پاکستان کے تصورات کا آئینہ دار بنانے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے اس سمت میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے تاہم سفر جاری رہا تو ایک نہ ایک دن منزلِ مراد تک ضرور پہنچ جائیں گے۔
قائداعظمؒ کا تصور یہ تھا نہ صرف مسلمانوں کیلیے الگ ریاست قائم ہو بلکہ ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا ماڈل بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہمیں نظام حکومت دیا جائے تو ہم ایک ایسا ماڈل معاشرہ دیں گے جس کا افسر، جج، وکیل، استاد، پولیس، تاجر وغیرہ اور انتخابی نظام بھی مثالی ہو گا۔

آج ہم میں سے ہرایک اس بات کا جائزہ لے ہمارایہ سفر کن ارادوں اور مقاصد کے ساتھ شروع کیا گیا تھا اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ سیاستدانوں سے یہی مطالبہ ہے کہ ایسا پاکستان دو جس کا قائداعظمؒ نے تصور دیا تھا۔ آج پاکستان دشمن اور پاکستان کے بنیادی نظریات کے مخالف بھی یہاں فخر کے ساتھ رہ رہے ہیں‘ان کیخلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔

قائداعظمؒ ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی تھیوکریسی کا تصور اسلام میں موجود ہے۔ ان کا تصور پاکستان ایک ماڈرن جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ ہی صرف غیراسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین، قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔ جمہوری نظام کے علاوہ قائد اعظم پاکستان میں اسلام کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی عدل چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا لیکن اگر موجودہ پاکستان میں ان اصولوں کے نفاذ کی امید بھی نظر نہیں آتی تو کیا یہ تصور پاکستان کا قصور ہے؟ تصور پاکستان تو ایک آئیڈیل ہے جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے ہم پاکستان کو بانی پاکستان کے تصورات کا آئینہ دار بنانے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں