'' مہمان پرندے ''شکار یوں کے نرغے میں ہیں
شیئر کریں
راؤ محمد شاہد اقبال
معصوم پرندوں کا شکار ہمیشہ سے عرب شہزادوں کا محبوب ترین مشغلہ رہاہے ۔اپنے اسی جذبے اور خواہش کی تسکین کی خاطر مختلف خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب شہزادے اپنے لاؤ لشکر سمیت معصوم پرندوں کے شکار کے لیے ہر سال پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور ہمارے حکمران اور اربابِ اختیار انہیں ہنسی خوشی پرندوں کے شکار کرنے کے پرمٹ تھوک کے حساب سے جاری کردیتے ہیں کیونکہ اس کے عوض انہیں ملک اور بیرونِ مختلف طرح کے مالی فوائد چاہئے ہوتے ہیں۔غیر ملکی کرنسی حاصل کرنے کی حرص نے ہمارے ملک میں آنے والے ”مہمان پرندوں ”کی بقا کو انتہائی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے سائبیریا سے آنے والے ”مہمان پرندے ” آہستہ آہستہ ہمارے ملک سے اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہو تے جارہے ہیں جس سے نہ صرف ہمارے ہاں نایاب آبی حیات کی بقا کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے بلکہ ماحولیاتی حالات پر بھی انتہائی منفی قسم کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے بار بار تنبیہ اور توجہ دلانے کا اتنا اثرتو اس سال بہر حال ضرور ہوا ہے کہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ ،سائبیریا سمیت دنیا کے سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں کے غیرقانونی شکاریوں کے خلاف سرگرم ہوگئی ہے جب کہ فیس بک پر شکار کیے گئے نایاب پرندوں کے شکار کی تصاویر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف بھی وسیع ترین تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے جہاں ایک جانب رواں سال قانونی شکار یوں کے لیے قواعد وضوابط میں کئی طرح کی بامعنی اور اہم ترین ترامیم کی ہیں، وہیں غیر قانونی شکاریوں کے حوالے سے بھی منفرد قدم اٹھایا ہے جس کے تحت شکارکیے گئے پرندوں اور جانوروں کی تصاویر کو فیس بک سمیت سوشل میڈیا میں کسی بھی جگہ پر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
سندھ میں عموماً ہر سال مہمان پرندوں کی آمد کا آغاز 15اکتوبر سے شروع ہو جاتا ہے اور ماہ دسمبر اور جنوری مہمان پرندوں کا سیزن کہلاتاہے ۔یاد رہے کہ یہ پرندے 28 فروری تک سندھ سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں قیام کرتے ہیں اور اُس کے بعد اپنے اپنے آبائی علاقوں کی سمت واپس پرواز کر جاتے ہیں ۔ماہرینِ جنگلی حیات کے مطابق پرندوں کی دنیا بھر میں 10 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں مہاجر پرندوں کی 2200 کے قریب اقسام موجود ہیں۔ پاکستان میں پرندوں اور ممالیہ پر کام کرنے والی اولین شخصیت ٹی جے رابرٹس کے مطابق پاکستان میں پرندوں کی 668 اقسام پائی جاتی ہیں ۔ موسم سرما میں ہجرت کرنے والے پرندے عالمی طور پر جن راستوں پر سفر کرتے ہیں وہ 7 مختلف راستے ہیں جنہیں فلائی ویز کہا جاتا ہے۔ پاکستان تک پہنچنے والے اِس راستے یعنی فلائی وے کا نام انڈس فلائی وے یا روٹ نمبر 4 ہے۔ پاکستان میں 20 رام سر سائیڈ ز موجودہیں،رام سر سائیڈز تیکنیکی اصطلاح میں ایسے علاقوں کو کہتے ہیں جہاں 20 ہزار سے زائد مہمان پرندے اپنا قیام کرتے ہیں،سندھ میں ایسے علاقوں کی تعداد 10 سے زائد ہے جبکہ اس کے علاوہ سندھ بھر میں 33 سے زائدآبی گزر گاہیں بھی واقع ہیں۔
پاکستان میں مہمان پرندوں کی آمد سائبیریا سے عالمی گرین روٹ سے ہوتی ہے اور اس فلائی زون سے گزر کر یہ پرندے پاکستان خصوصاً سندھ کی آبی گزر گاہوں، صحرائوں اور دیگر علاقوں میں قیام کرتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق سندھ کے مختلف علاقوں میںاس موسم میں 223اقسام کے پرندے آتے ہیں جن میں فیلکن، اسٹاکس، کامن ٹیل، ڈن لن سمیت دیگر اقسام کے پرندے شامل ہیں، ان پرندوں کو چار گروپ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔جن میں لمبی گردن ، لمبی چونچ،لمبی ٹانگوں زمینی علاقوں میں غذا کھانے والے، مردار جانور کھانے والے، سمندری غذا کھانے والے سمیت دیگر اقسام کے پرندے شامل ہیں، جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق سندھ میں ان پرندوں کے مخصوص علاقوں میں قمبر شہداد کوٹ، سانگھڑ، نواب شاہ، دادو، بدین، ہالیجی، ٹھٹھہ، کراچی کے ساحلی علاقے، آبی گزر گاہیں اور دیگر شامل ہیں، ان میں سے بعض پرندے اس موسم میں قیام کے دوران اپنی نسل بڑھاتے ہیں اور موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ان علاقوں میں چہل پہل ہو جاتی ہے اور یہ پرندے فروری تک قیام کے بعد واپس دوبارہ ٹولیوں کی شکل میں اپنے آبائی وطن سائبیریا روانہ ہو جاتے ہیں،مشاہدہ میں آیا ہے کہ گزشتہ 3برسوں سے ملک میں سیلاب اور بڑھتے ہوئے شکار کے باعث سائبیریا سے پرندوں کی آمد کا سلسلہ بہت کم ہوگیا تھا تاہم رواں سیزن میں بڑی تعداد میں پرندوں کی آمد متوقع ہے۔ ماہرین کی طرف سے اُمید کی جارہی ہے کہ تقریباً 3 سے 4لاکھ پرندے صرف سندھ کی آبی گزر گاہوں، صحرائوں اور دیگر علاقوں میں 4 ماہ تک قیام کریں گے اور اگر اس سال ان کا شکار اُس رفتار سے نہیں کیا گیا جو کئی سال سے ہمارے اربابِ اختیار کا معمول رہا تو پھر قوی امکان ہے آئندہ ان مہمان پرندوں کی آمد میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھنے میں آسکتا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق مہمان پرندوں کا شکار ہی نہیں بلکہ غیرقانونی طورپر دیدہ دلیری سے شکار کیے جانے والے سرد علاقوں کے نایاب پرندوں کی تصاویر اپ لوڈ کرنے کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ تک بڑھ گئے تھے جو عام افراد کو ان مہمان پرندوں کے شکار کرنے کی ترغیب کا باعث بن رہے تھے جس کی سنگینی کا بروقت اندازہ لگانے کے بعد اس عمل کے تدار ک کے لیے محکمہ جنگی حیات نے نہ صرف غیر قانونی شکار میں ملوث افراد کے خلاف انکوائری شروع کی بلکہ شکار کی پابندی والے علاقوں میں پرندوں کا شکار کرنے میں ملوث افراد کو باقاعدہ نوٹس بھی جاری کیے ہیں جس میں اندرون سندھ کی کئی با اثرسیاسی شخصیات بھی شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ مہمان پرندوں کے غیرقانونی شکار پر 2 سال قیدکی سزا اور 50 ہزار جرمانہ ہوسکتا ہے۔اگر محکمہ جنگلی حیات سندھ سیاسی اثرورسوخ کو خاطر میں لائے بغیر اپنی کارروائیاں اس طرح جاری رکھے تو اس سے سندھ کی قدرتی خوبصورتی اور ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭