میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کشمیر ۔۔۔” اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے “

کشمیر ۔۔۔” اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے “

ویب ڈیسک
اتوار, ۵ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

آج پوری قو م کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پورا دن منا رہی ہے چنا ں چہ گذشتہ کا لم جس کا عنوان”کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم“ تھا اسکی دوسری قسط آ ئندہ کالم میں تحریر کرینگے ان شاءللہ ۔فی الحال جب پوری قوم ہی مسئلہ کشمیر کے بارے میں سوچ رہی ہے تو اسی میں حصہ ملانا چاہئے ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے عوام الناس میں اس قدر مایوسی پائی جاتی ہے کہ جن دوکانداروں نے اُدھار سودے پر پابندی لگائی ہو وہ دوکان کی پیشانی پر یہ تحریر لکھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک اُدھار بند ہے ۔ یعنی اُدھار بلکل بند ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہماری زندگی و موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم کشمیر کے بغیر بھی زندہ ہیں اگرچہ بہت شرمندہ ہیں ۔ قوموں کے درمیان مسائل اور تنازعات کا حل بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں بطور مضمون پڑھایا جا رہا ہے ۔ دنیا میں اس علم کے بڑے بڑے ماہرین پیدا ہو چکے ہیں ۔ تنازعہ پیدا ہوتا ہے فوری طور پر اس کا حل آسان ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور پھر ا س کا حل مشکل تر ہو کر رہ جاتا ہے ۔ تنازعہ پیدا ہونے کے ابتدائی دنوں میں ہی حل کیوں نہیں کر لیا جا تا ؟ اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً قوموں کے درمیان یہ تنازعہ کسی بالا دست قوت نے منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا ہو اور وہ تنازعے کو بر قرار رکھنے کے لیے بھی سرگرم ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ فریقین پہلے پہل اپنی کڑی شرائط پر اس تنازعے کا حل چاہتے ہوں جسکی وجہ سے مسئلہ طول پکڑ گیا ہو ۔ہو سکتا ہے کہ شروع میں فریقین اس تنازعے کو سنجیدہ نہ لے رہے ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شروع میں ہی اس مسئلے کو فریقین اپنی قومی انا اور ضد کا مسئلہ بنا بیٹھے ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ فریقین میں سے کوئی ایک ناجائز دعویٰ کر کے بد معاشی یا سرکشی پر اترا ہوا ہو ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فریقین کو اس مسئلے کی برقراری میں کوئی قومی مفاد نظر آگیا اور اب وہ چاہتے ہوں کہ اس مسئلے کو اسی طرح برقرار رہنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں وقت کے حکمرانوں ، اسٹیبلشمنٹ یا دیگر سیاسی عناصر وقتی مصلحتوں کی وجہ سے لا پرواہی کے مرتکب ہوئے ہوں ۔ ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعات اس وقت بھی طول پکڑ جاتے ہیں جب ان تنازعات کو عوام کی سطح تک لے آیا گیا ہو ۔ بدقسمتی سے تنازعات سے کچھ عناصر کے اورملکی و بین الاقوامی قوتوں کے مفادات بھی وابستہ ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے پہلی عالمی جنگ کی تباہی کے تناظر میں لینن نے کہا تھا کہ ” جنگیں خوفناک ہوتی ہیں لیکن وہ خوفناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں “ اسی طرح تنازعات قوموں کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں لیکن بعض قوتوں کے لیے یہ منافع بخش کاروبار کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں ۔
قوموں کے درمیان تنازعات جب عوام میں آجائیں اور سیاسی عناصر اپنی سیاست کے لیے انھیں قومی وقار ، سلامتی اور مفاد کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے لگیں تو پھر تنازعے کے حل کے سلسلے میں فیصلے کرنے والی اتھارٹیز کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں ۔ ایک طرف یہ اندرونی دباﺅ اور دوسری طرف قوموں کے درمیان تنازعات کو اسپانسر کرنے والی قوتوں کی جانب سے بیرونی دباﺅ اور سازشیں مسئلہ اور تنازعہ کے حل کے راستے میں ہمالیہ جیسی رکاوٹیں بن جاتی ہیں پھر ساری قوم مل کر مسئلے کے حل پر بات کرتی ہے لیکن اصل میں مسئلے کا حل کسی کے بھی اختیار میں نہیں رہتا ۔
تنازعات کی سائنس بتاتی ہے کہ تنازعہ پیدا ہوتا پنپتا ہے پھر ایک خاص شدت پر پہنچ کر خودبخود اسکی شدت میں کمی آنا شروع ہوتی ہے اور اس کے حل کے قدرتی اسباب پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تنازعات کی سائنس جاننے والے شرپسند دماغ یہ بھی جانتے ہیں کہ تنازعات کو مصنوعی تنفس کے ذریعے کس طرح بر قرار رکھا جاتا ہے اور وقت ضرورت اس میں شدت بھی لائی جاتی ہے ۔ تنازعے کے بے جان جسم میں جان ڈالنے کی صلاحیت رکھنے والے ماہرین کا بے رحمی اور سفاکیت میں بھی کوئی جواب نہیں ہوتا لاکھوں نہیں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں انسانوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کرنے والے تنازعات کی برقراری میں اپنا ماہرانہ کردار ادا کرنے والی یہ قوتیں اور ان کے کارندے انسانیت کے درد سے نا آشنا ہوتے ہیں بھلے سے وہ زبانی طور پر کتنا ہی انسانی حقوق کا راگ الاپیں ۔ مسئلہ کشمیر بھی ایک طول پکڑ جانے والا مسئلہ ہے اس میں بھی تقریباً وہ تمام پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں جو دو ملکوں کے درمیان کسی تنازعہ میں پیدا ہو جائیں تو اس کے حل کو مشکل تر بنادیتی ہیں ۔ اسلحے کی سوداگر بین الاقوامی قوتیں ممالک کے درمیان کشیدگی کو اسپانسر کرتی ہیں ۔ کشیدگی اور لڑائی ہوگی تو ان کا کاروبار چلے گا امریکا سمیت جن ممالک کی معیشت اسلحے کی پیدا وار اور اس کی تجارت پر کھڑی ہے دنیا میں امن ان کی بے چینی کا باعث ہوتا ہے ۔ پڑوسی ممالک کے خوشگوار تعلقات انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ کشیدگی کو قائم رکھنا اور اس میں شدت لانا انکی ترجیحات میں سرفہرست ہوتا ہے ۔
مسئلہ کشمیر کے سبب بھارت اور پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے ۔ دوسرے تیسرے درجے کی قیادتیں عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں ۔ بھارت میں تو انتہا پسندی کی انتہا ہو گئی ہے ، بدترین ہندو انتہا پسند اقتدرا میں آگئے ہیں جنھوں نے بھارت کے سیکولر ازم کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے ۔ پاکستان دشمنی کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ بنا کر اپنی سیاست چمکانے والے اور انتخابات جیتنے والے بھارتی حکمران عام بھارتیوں کے لیے عذاب بن گئے ہیں ۔ پاکستان میں بھی بھارت دشمنی ایک نفع بخش کاروبار ہے اس کے بینیفشریز میں سیاست ، مذہب میڈیا اور اداروں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ ہیں ، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہوگا لیکن جب مذاکرات کے لیے فریقین کے نمائندوں پر سیاسی و جذباتی دباﺅ ہوگا تو وہ کس طرح کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ۔ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو اپنے اپنے ممالک میں سسکتی تڑپتی انسانیت نظر نہیں آرہی لیکن درد دل رکھنے والے کشمیر سے معذرت خواہ ہیں ۔
اس طرف کو بھی چلی جاتی ہے نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے
لیکن یہ معذرت کرنے والے کشمیریوں کے ان سے کہیں زیادہ خیر خواہ ہیں جو کشمیر کے شہیدوں کے خون کی سوداگری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں