ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی تعیناتی میں اعلی افسران میں سرد جنگ ؟؟
شیئر کریں
وحید ملک
آئی جی سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کے درمیان کچھ معاملات خراب ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، تاہم ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید دونوں جانب سے نہیں ہوسکی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سابق ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عارف حنیف کی ڈسٹرکٹ ایسٹ میں پوسٹنگ ہونے کی وجہ سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی پوسٹ خالی تھی۔ اس حوالے سے اس عہدے کے لیے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے منیر شیخ اور آفتاب پھٹان کے نام دیے تھے جب کہ آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر امین یوسف زئی کو قائم مقام ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بنانا چاہتے تھے ۔آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کے نام مسترد کر کے ڈاکٹر امین یوسف زئی کو نامزد کر دیا بلکہ چیف سیکرٹری نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ اس عرصے میں ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا چارج ایس ایس پی پرویز چانڈیو کے پاس رہا جن کو ڈی ڈی او کے اختیارات بھی مل گئے جس کے تحت وہ سی ٹی ڈی کا فنڈ بھی استعمال کر سکتے تھے تاہم معاملہ یہ ہےکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی سیٹ 20 ویں گریڈ کی ہے جب کہ پرویز چانڈیو بھی 19 ویں گریڈ میں ہیں جن کے مذکورہ سیٹ پر رہنے سے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اے ڈی خواجہ اور ثناءاللہ عباسی نے سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے دور میں اس طرح کے معاملات پر یکجا ہو کر آواز اٹھائی تھی، جس کی وجہ سے سابق آئی جی سندھ نے ایک افسر کی خدمات وفاق کو واپس کر دی تھیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسروں کے غلط اقدامات پر آواز اٹھانے والے خود ایسے موقع پر کیا کرتے ہیں۔