میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قرضوں کا بوجھ اور حکومت کی وضاحتیں

قرضوں کا بوجھ اور حکومت کی وضاحتیں

ویب ڈیسک
پیر, ۲۳ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزارت خزانہ کے ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کا داخلی اور غیر ملکی قرضہ مجموعی طور پر جون 2017 میں 19 ہزار 634 ارب روپے ہے جو کہ جی ڈی پی کے 61.6 فیصدکے مساوی ہے۔ حکومت کوغیرملکی قرضے جون 2018 تک جی ڈی پی کے 60 فیصد تک لانا ہے جب کہ 2001 کی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے وقت یہ جی ڈی پی کے97.7 فیصدکے مساوی تھا۔ ترجمان کے مطابق ملک پرداخلی قرضہ تقریباً 13081 ارب روپے کا ہے،جبکہ بیرونی قرضہ 6552 ارب روپے کا ہے، اگر ہم جی ڈی پی کی سطح پر موازنہ کریں تو بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 20.8 فیصد سے کم ہوکر 20.6 فیصد ہوگیا ہے۔داخلی قرضہ 40.5 فیصد سے بڑھ کر 41.1 فیصد ہوگیا ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2001 کے دوران بیرونی قرضہ کل مجموعی قرضے کا 52.1 فیصد تھا جو کہ جون 2017 میں کم ہو کر 33.4 فیصد رہ گیا ہے۔ ترجمان وزارت خزانہ نے دعویٰ کیاہے کہ 2001 میں جی ڈی پی کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بیرونی قرضہ تقریباً 50 فیصد تھا جو کہ جون 2017 میں جی ڈی پی کے 20.6 فیصد رہ گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ 82 ارب ڈالر کا قوم پر غیر ملکی قرضہ ہوگیا ہے اسے غریب قوم کس طرح لوٹائے گی، انہوں نے جواب دیا کہ 82 ارب ڈالر کا قرضہ نہیں ہے کیونکہ اس میں نجی شعبے کا بھی قرضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان پر جون 2017 تک غیر ملکی قرضہ 62.5 ارب ڈالر کا ہے باقی تقریباً 20 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنے کی ذمہ دار حکومت پاکستان نہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت نے قرضے کا بوجھ کم کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی ہے تو ترجمان نے کہا کہ موجوہ حکومت نے ترمیم کے ذریعے مختصر المدت اور طویل المعیاد حکمت عملیاں بناکر ان کو پارلیمنٹ کے ذریعے ایف آر ڈی ایل ترمیمی ایکٹ 2005 کا حصہ بنایا ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ رکاوٹوں کے باوجود 10 سال میں بلند ترین شرح نمو حاصل کرنے میںپاکستان کو کامیابی ملی۔احسن اقبال نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تباہ معیشت کو بہتری اور ملک کوترقی کی راہ پر ڈالا، سی پیک کی بدولت 10 سال میں سب سے زیادہ غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی لیکن سیاسی افراتفری کے وجہ سے اسٹاک مارکیٹ کا رجحان برقرار نہیں رہ سکا۔وزیر داخلہ نے شکوہ کیا کہ گزشتہ 4 سال میں بار بار معاشی ترقی کا پہیہ جام کرنے کی کوششوں کی گئی لیکن رکاوٹوں کے باوجود 10 سال میں بلند ترین شرح نمو حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔انہوں نے بتایا کہ توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں سے ترقی کے دروازے کھلیں گے جب کہ عمران خان یہ بھی نہیں جانتے کہ قرضے ترقیاتی منصوبوں پرلگانے سے نقصان نہیں ہوتا، عمران خان اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس ہوکرمعیشت سے متعلق مایوسی پھیلارہے ہیں۔احسن اقبال کا کہنا تھاکہ ورلڈ بینک نے پاکستان کی معیشت میں بہتری لانے پرحکومت پاکستان کی تعریف کی، دو روزقبل ایک عالمی جریدے نے پاکستان کا شماردنیا کی 5 ابھرتی معیشتوں میں کیا جب کہ ورلڈ بینک نے پاکستان میں جاری سیاسی ابتری کومعیشت کے لیے خطرہ قراردیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ برسوں میں ، مستحکم مارکیٹ اور طویل مدت سے فعال بینکاری نظام رکھنے والی، کئی ترقی یافتہ ترین معیشتوں نے بینکاری نظام کے بحرانوں اور بینک دیوالیہ ہونے جیسے چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔کسی بھی ملک کے مرکزی بینک کا کردار صرف اس لیے اہم نہیںہوتا کہ وہ بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کرتا ہے بلکہ اس صورت حال کے اسباب کا حل فراہم کرنے میں بھی اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بڑی سطح پر بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے کساد بازاری وبائی انداز میں پھیلتی ہے اور یہ صورت حال کسی بڑے مالیاتی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ رقوم جمع کرانے والوںکے مفادات کا تحفظ بینک کے دیوالیہ ہونے کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے تاکہ پورا نظام ہی منہدم نہ ہوجائے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مالیاتی اداروں کا بحران ملکی معیشت کے لیے ہولناک نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، جس کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والا دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے، اس کے باوجود بینکاری کا شعبہ اس دباؤ کو برداشت کرنے میں کیسے کام یاب رہا؟ اسٹیٹ بینک پاکستان ایکٹ 1956اور بینکنگ کمپنی آرڈیننس 1962کے تحت یہ ادارہ احسن طریقے سے اپنی یہ ذمے داریاں نبھا رہا ہے(الف) ڈپازیٹرز کے مفادات کا تحفظ(ب) مالیاتی اور قرضوں کے نظام کے ضابطوں کے تحت لانا(ج) باقاعدہ نظام کے تحت بینکنگ کمپنیوں کی کارکردگی کی نگرانی(د) ان کی مطلوبہ انتظامی صلاحیت کو یقینی بنانا۔ اسٹیٹ بینک قانون کے مطابق اپنی یہ ذمے داریاں پوری کررہا ہے(الف) کمرشل بینکوں کو لائسنس کی فراہمی(ب) مطلوبہ سرمائے کا تعین(ج) اسپانسر شیئر ہولڈرز کے استحکام اور ملکیت سے متعلقہ امور کا جائزہ (د)بورڈ اور مینجمنٹ میں تقرری/برطرفی/سپر سیڈ کرنا/معطلی(ہ) بینکوں کے مسائل حل کرنا(و) بینکوں کو قرض یا مالیاتی تعاون فراہم کرنا اور (ح) آخری حل کے لیے قرضوں کی فراہمی(ایس بی پی ایکٹ 1956)۔ مفادِ عامہ کا تحفظ کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اسپانسرز کی واضح کوتاہیوں اور بدترین بدانتظامی کے باوجود کسی بینک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا۔ دیوالیہ ہونے سے روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک یہ دو اقدامات کرنے کا اختیار رکھتا ہے: (1) بینک کی لائسنس کی تنسیخ کے ذریعے حساب بے باق کرنا (2)کسی دوسرے مالیاتی ادارے میں انضمام یا (3) ادارے کی بحالی کے لیے مداخلت۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان پر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے معیشت پر اس کے منفی اثرات کے ساتھ مہنگائی میں اضافے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔اب حکومت خاص طورپر وزارت خزانہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس صورت حال کو درست کرنے اور مزید قرضوں کا حصول بند کرنے اور لیے گئے قرضوں کے بہتر استعمال کے بارے میں وضاحت کرتی ، لیکن وزارت خزانہ نے محض اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں کے ذریعے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے معیشت کی صورت حال کو خوشنما بناکر پیش کرنے کی کوشش ہے۔حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے روگردانی ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ 4سالہ دور میں جتنے قرض حاصل کیے ہیں گزشتہ 70سال کے دوران کبھی اتنے قرض حاصل نہیں کیے گئے تھے ، بقول احسن اقبال کے قرض حاصل کرنا اتنی بری یاغلط بات نہیں ہے اگر ان قرضوں کو واقعی ترقیاتی منصوبوں پر لگایا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک سے لیے گئے بیشتر قرضوں کے بارے میں یہی معلوم نہیںہورہاہے کہ ان قرضوں کی رقم کہاں گئی،قرضوں کو اگر درست جگہ پر لگایاجاتااور اس سے ترقیاتی منصوبے مکمل
کیے جاتے تو اب تک ملک کے عوام کے تمام بڑے مسائل حل ہوجانا چاہئے تھے لیکن حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اگر ایک آئل ٹینکر الٹنے سے کچھ لوگ زخمی ہوتے ہیں تو پورے پنجاب میں ان کے علاج کے لیے دو ہسپتالوں میں چند بستروں سے زیادہ کوئی سہولت میسر نہیں آتی،ملک کے عوام کی اکثریت پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ بیشترسرکاری تعلیمی اداروں کی حالت دگرگوں ہے،آلودگی کایہ عالم ہے کہ یہ کینسر سے بھی زیادہ جان لیوا مصیبت بن چکی ہے،آخر قرض کی بھاری رقوم کس پر اور کہاں خرچ کی جارہی ہے ،اگر یہ رقم صرف موٹر ویز کی تعمیر اور گرین اور اورنج بسوں کے منصوبوں پر خرچ کی جارہی ہے تو اس سے اس ملک کے کتنے فیصد عوام کو فائدہ پہنچ سکتاہے اور اگر یہ قیمتی منصوبے شروع کرنے کے بجائے عوام کوبنیادی سہولتوں کی فراہمی کے منصوبوں پر توجہ دی جاتی تو شاید اس ملک کے عوام کو بہت سے مسائل سے نجات مل چکی ہوتی،جہاںتک بجلی کے منصوبوں کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بجلی کے نئے منصوبوں کی تکمیل سے بجلی کی طلب ورسد میں کمی کرنے میں مدد ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن نئے منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت عوام کی دسترس سے باہر نظر آتی ہے اور اس کو عوام کی دسترس میں رکھنے کے لیے حکومت کو اربوں روپے سالانہ سبسڈی دینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔اس صورت حال کے باوجود اگر وزارت خزانہ کاترجمان قرضوں کے حصول کو درست قرار دینے اور وزیر داخلہ ملک کی معیشت میںترقی کادعویٰ کرتے ہیں تو اس بارے میں سوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں حقیقت کو سمجھنے اور اس کااعتراف کرنے کی ہمت عطافرمائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں