جرائم میں ملوث پولیس اہلکار بحال ہونے لگے
شیئر کریں
سی ٹی ڈی کے راجہ عمر خطاب سانحہ صفورا گوٹھ کے کریڈٹ پر چل رہے ہیں
کراچی شہر میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ پولیس ہمیشہ سب اچھا کا راگ الاپتی رہتی ہے اور افسران اپنی معمولی کارکردگی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اس حوالے سے سینٹرل پولیس آفس میں گزشتہ ماہ ایک اعلی سطح کے اجلاس میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی متعدد افسران کو کھری کھری سنائی تھیں۔ سی پی او کے ذرائع کے مطابق ان افسران میں ایس پی سی ٹی ڈی ٹو کے جنید احمد شیخ کو کہا گیا تھا کہ آپ خود بھی کچھ کام کرو کب تک بندے دیگر اداروں سے خرید اور لے کر پریس کانفرنس کرتے رہو گے۔ سی ٹی ڈی کے ایک اور افسر راجہ عمر خطاب کو کہا گیا تھا کہ کب تک سانحہ صفورہ گوٹھ کے ملزمان کی گرفتاری کو اپنے کریڈٹ پر رکھو گے کوئی اور کام بھی کرو، یہ تو عالم ہے کراچی پولیس کی کارکردگی کا، اگر ذرا ایک نظر کراچی میں ہونے والی جرائم کی وارداتوں کے اعداد و شمار پر ڈالیں تو پولیس کی جانب سے پیش کی جانے والی سب اچھا ہے کی رپورٹ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف معلوم ہوتی ہے۔ اس دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے شہر کے محافظوں کی تعداد تو یقینا انتہائی کم ہے لیکن چلتی کا نام گاڑی کی مثال کی مانند یہ شہر پھر بھی چل کی رہا ہے۔کراچی سندھ پولیس کے ایک اور ایس پی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نکلا، جس کی ڈیپارٹمنٹل انکوائری رپورٹ منظر عام پر آگئی، انکوائری رپورٹ کے مطابق ایس پی ذاکر حسین پپرانی کے خلاف انکوائری شہری احمد حسین کی درخواست پر کی گئی ،ایس پی ذاکر حسین نے شہری احمد حسین سے اسکا فلیٹ کرائے پر لینے کے بعد اس پر قبضہ کرلیا،ایس پی ذاکر حسین نے شہری احمد حسین کو ہراساں کیا اور سنگین نتائج کی دھمکی دی ،ایس پی ذاکر حسین نے اگست 2013 سے مارچ 2016 تک فلیٹ کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا ، ایس پی ذاکر حسین فلیٹ کے مالک احمد حسین کو 2.50ملین روپے کرائے کی مد میں ادائی کرنے کے پابند ہیں ،ذاکر حسین کے اقدامات محکمہ پولیس کی بدنامی کا سبب بنے ہیں ا یس پی ذاکر حسین کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جانی چاہئے۔ ایس پی ذاکر حسین ماضی میں بھی بھتہ خوری زمینوں پر قبضے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، ایسے ہی بہت سارے واقعات کراچی پولیس کی تاریخ میں موجود ہیں۔ حالیہ طور پر ایک اور تازہ معاملہ سامنے آیا ہے کہ کرپشن اور جرائم میں ملوث برطرف پولیس اہلکاروں کو بحال کیا گیا بلکہ ماضی میں ٹارگٹ کلرز کے سہولت کا ر پولیس افسران کو بھی ایک مخصوس ٹائم پیریڈ کے بعد دوبارہ پوسٹنگز دی جارہی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سابق دی ایس پی سرجانی ٹاو¿ن جاوید عباس کی ہے جو کہ عرصہ دراز تک سرجانی ٹاو¿ن میں رہ کر نہ صرف چائنا کٹنگ سے حاصل ہونے والی رقم سے مستفید ہوتے رہے بلکہ ٹارگٹ کلرز کی سرپرستی بھی کرتے رہے ہیں اور ایک ٹارگٹ کلر نے توانکشاف کیا تھاکہ اسے بیرون ملک روانگی کے لیے ائیرپورٹ بھی جاوید عباس کی گاڑی میں ڈی ایس پی خود چھوڑنے گیا تھا،واضح رہے کہ یہ وہی جاوید عباس ہے جس نے پندرہ سال قبل جب وہ ایس ایچ او کھارادر تھا تو ککری گراو¿نڈ سے متصل عمارت میں دستی بموں کا ڈراما رچاکر افغانیواں کو پکڑ اتھا ،اور بعدازاں اس کیس کی انکوائری ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ ناکارہ دستی بم پولیس نے ایک کباڑیئے سے خریدے تھے جس پر جاوید عباس کو معطل کردیا گیا تھا۔