میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران خان نے معافی مانگ لی، فرد جرم کی کارروائی موخر

عمران خان نے معافی مانگ لی، فرد جرم کی کارروائی موخر

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۳ ستمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دئیے گئے بیان پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت کے دوران عمران خان نے معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ میں خاتون جج کے پاس جا کر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔جمعرات کو خاتون جج کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے ۔سماعت کا آغازکرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم صرف چارج پڑھیں گے۔ اس موقع پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پچھلی سماعت پر عمران خان بات کرنا چاہتے تھے جس پر عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ میری 26 سال کی کوشش رول آف لا کی ہے،خمیرے سوا جلسوں میں رول آف لا کی کوئی بات نہیں کرتا ۔عمران خان نے خاتون جج سے معافی کیلئے رضامندی ظاہر کی جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے لیے توہین عدالت کاروائی کرنا مناسب نہیں ہوتا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی روک رہی ہے۔عمران خان نے دوران سماعت کہا کہ میرے علاوہ کوئی یہ بات نہیں کرتا، عدالت کو لگتا ہے کہ میں نے اپنی حد پار کی، خاتون جج کو دھمکانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اسلام آبادہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان ایک ہفتے کے اندر بیان حلفی جمع کرادیں،خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا آپ کا ذاتی فیصلہ ہوگا، اگر آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا اور معافی کیلئے تیار ہیں تو یہ کافی ہے۔عمران خان نے کہا کہ اگر عدالت کہے تو میں خاتون جج کے سامنے جا کر معافی مانگنے کو تیار ہوں، یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آپ کا بیان ریکارڈ کر لے گی، عمران خان نے کہا کہ کیا بیان حلفی کے علاوہ عدالت کو مطمئن کرنے کا کوئی آپشن موجود ہے؟ جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نہیں، آپ کو بیان حلفی جمع کرانا ہو گا، آپ نے جو کہا اس کا ایک بیان حلفی جمع کرائیں، جو کچھ آپ نے کہا اس عدالت نے آپ کو کہنے کا نہیں کہا تھا۔بعد ازاں عدالت نے عمران خان کو بیان کی روشنی میں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے کہا کہ ہم فر دجرم کی کارروائی روک رہے ہیں،عدالت نے عمران خان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی 3 اکتوبر تک موخر کردی۔قبل ازیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی سے قبل میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حقیقی آزادی کے لیے مافیا سے جنگ لڑ رہا ہوں، عدلیہ سے کبھی نہیں لڑوں گا۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی عدالت میں پیشی سے متعلق ضابطہ اخلاق کا سرکلر گزشتہ روز جاری کیا تھا۔خیال رہے کہ 8 ستمبر 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے سماعت کے بعد متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ وکیل صفائی، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کو سنا اور وکیل نے دوبارہ جمع کرائے گئے جواب سے آگاہ کیا، جو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہونے کا باعث بننے والی تقریر کی وضاحت تھی۔حکم نامے میں نہال ہاشمی اور فردوس عاشق اعوان سمیت مختلف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جواب کو اطمینانبخش نہیں پایا گیا، ہم اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ جواب میں مبینہ طور پر ان کے خلاف توہین سے متعلق جاری شوکاز نوٹس پر صفائی پیش کی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں