میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کسی سپر پاؤر کے دباؤ میں آنے والا نہیں،وزیراعظم

پاکستان کسی سپر پاؤر کے دباؤ میں آنے والا نہیں،وزیراعظم

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۳ ستمبر ۲۰۱۸

شیئر کریں

وزیرا عظم عمران خان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھیک مانگنے نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے لیے گئے تھے ، پاکستان کے لوگ کسی سپر پاور کے دباؤ میں آنے والے نہیں، اگر ہم بھارت سے دوستی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مقصد یہ ہے کہ تجارت ہو گی تو خطے سے غربت ختم ہو گی لیکن اس کا غلط مطلب لینا چاہیے اور نہ اسے کمزور ی سمجھنا چاہیے ، امید ہے ہندوستان کی قیادت میں موجود تکبر ختم ہوجائے گا۔بیورو کریسی کو واضح پیغام ہے کہ آپ پیشہ وارانہ کام کریں آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی لیکن جب آپ کو آزادی اور اختیار دیا جائے گا تو آپ پر ذمہ داری بھی عائد ہو گی ، آپ کو ایسی سیاسی حکومت نہیں ملے گی آپ کو اس کی قدر کرنی ہے اور اسے ضائع نہ ہونے دینا ،پاکستان آج جہاں کھڑا ہے وہ بڑا مشکل دور ہے ، ریکارڈ مالی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے ،قوموں پر برے وقت آتے ہیں لیکن ہم اس گردش سے باہر نکلیں گے اور اس میں سول افسران کا بہت بڑا کردار ہوگا ۔
ان خیالات کا اظہارا نہوں نے لاہور میں ڈپٹی کمشنرز اور پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ عمران خان نے کہا کہ میرا مقصد صرف پاکستان ہے اور یہ عمران خان کا ذاتی ایجنڈا نہیں بلکہ یہ پاکستان کا ایجنڈا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان کے ذمہ قرضہ 28ہزار ارب ہے لیکن وہ بھی 30ہزار ارب ہے ،پاور سیکٹر کے 1200ارب کے گردشی قرضے ہیں ،گیس کے محکمے جو کبھی خسارے کا شکار نہیں ہوئے وہ بھی 125ارب کے مقروض ہیں ، پی آئی اے خسارے کا شکار ہے ،قرضے کی وجہ سے ا سٹیل مل بند پڑی ہے ،تمام حکومتی کارپوریشنز پر قرضے چڑھے ہوئے ہیں ۔ حکومت کے ذمے جو لائبیلٹیز ہیں وہ بھی ایک ہزار ارب روپے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشکل وقت ہے اور قوموں پر برے وقت آتے ہیں ۔ یہ وقت بڑا اہم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس گردش سے نکلیں گے اور اس میں آپ کا بہت بڑا کردار ہوگا ۔
دنیا میں کچھ ملک ترقی کرتے ہیں اور کچھ ملک ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنہیں انہیں ترقی پزیر یا تیسری دنیا کے ملک کہا جاتا ہے ،ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں صرف گورننس کا فرق ہوتا ہے ۔ سوئٹرز لینڈ جس کے پاس کوئی وسائل نہیں لیکن وہ خوشحال ترین خطہ ہے جبکہ ہمارے شمالی علاقہ جات اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں ۔ وہاں معیاری گورننس سے لوگوں کا معیار زندگی تبدیل ہو گیا ۔ سنگا پور ہمارے سامنے ہے جو وژن رکھنے والے لیڈر کی وجہ سے آج کہاں پہنچ گیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہاں بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے اور اس میں جو ملٹری اور سیاسی لیڈر شپ آئی ہے ان کا ہاتھ ہے ۔ سیاسی مداخلت کی وجہ سے گورننس کا معیار خراب ہوا اور میرٹ کو ختم کیا گیا۔ میں نے پہلی مرتبہ رولز میں نرمی کے بارے میں سنا ہے اور یہ میرٹ کا قتل عام ہے ،جب آپ قانون ختم کرتے ہیں تو سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوکت خانم میں میرٹ کی وجہ سے عالمی ادارے بھی اس کے معترف ہیں ۔ عمران خان کے کہنے پر کسی کیلئے رولز میں نرمی نہیں کی گئی ۔ میں نے کسی کو بھرتی نہیں کرایا ،پاور اسٹرکچر کو کبھی بائی پاس نہیں کیا اور پورے ملک میں گورننس کو ایسے ہی ٹھیک کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختوانخواہ میں یہاں سے ایک آئی جی گئے جنہیں ہم نے با اختیار کیا حالانکہ اس سے پہلے اراکین اسمبلی کو سیاسی دباؤ کو عادت پڑی ہوئی تھی ۔
ہم نے اپنے لوگوں کا دباؤ لیا لیکن پولیس میں مداخلت کو ختم کیا ۔ ناصر خان درانی نے پانچ ہزار پولیس والوں کو کرپشن پر فارغ کیا اور سزا اور جزا کا نظام قائم کیا ۔ جب ہم نے پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا تو وہاں کی عوام پولیس کیلئے کھڑی ہو گئی اور وہ آئیڈیل پولیس بن گئی ۔پولیس فورس میں پروفیشنل ازم آنے کی وجہ سے کرائم کی شرح نیچے آئی اور دہشتگردی بھی نیچے آئی ۔ وہی ماڈل پورے پاکستان کے لئے لائیں گے ،ہم نے پورے پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے اور سیاسی عدم مداخلت کو لے کر آنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1960ء کی بیورکریسی ہمارے سامنے ہے جسے پوری دنیا مانتی تھی لیکن یہی بیورو کریسی ہمارے سامنے نیچے گئی ہے ، ہم اسے واپس اس عروج پر لے کر جانا چاہتے ہیں ۔ ہم تبدیلی لے کر آرہے ہیں اور آپ نے ہماری مدد کرنی ہے۔ جب آپ کو اختیار دیا جائے گا تو اس کے ساتھ آپ کے اوپر ذمہ داری بھی آنی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بہت تکلیف ہوئی جب دو بیور و کریٹ اور ایک پولیس آفیسر پبلک میں چلا گیا ۔ اداروں میں چین آف کمانڈ ہوتی ہے ، اگر کسی بیور وکریٹ کو شکایت تھی تو چیف سیکرٹری کو بتایا جاتا ،اسی طرح پولیس آفیسر آئی جی پنجاب کو آگا ہ کرتا ۔
میں واضح کر دوں آئندہ برداشت نہیں ہوگا اور سخت ایکشن لیا جائے گا ۔ اگر کسی کے ایجنڈے پر کام کیا گیا تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا اور ہمارے مخالفین کہتے تھے کہ کدھر ہے نیا خیبر پختوانخواہ نظر نہیں آرہا ۔ ہم نے کام کیا لیکن اشتہارات نہیں دئیے ،ہم نے خیبر پختوانخواہ میں ڈیڑھ ارب روپے کے اشتہارات نہیں دیے جبکہ ہمارے مخالفین نے پانچ سالوں میں 51ارب روپے کے اشتہارات دیے ۔ خیبر پختوانخواہ جہاں ایک حکومت کو دوسری بار ووٹ نہیں ملتے ہماری پارٹی کو انتخابات میں دوگنا وووٹ ملے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم نے ایڈ منسٹریشن اور گورننس بہتر کی ،لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لے کر آئے اس لئے لوگوں نے ہمیں ووٹ دئیے ۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کو موقع دیں گے ان پر کوئی دباؤ نہیں کہ غلط کام کریں ۔
اب تک یہ کلچر بنا ہوا تھا جس کے پاس اختیار ہوتا تھا وہ ہر کام کاہونا اپنا استحقاق سمجھتا تھا لیکن آپ پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا ۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ ہم نے نیا مائنڈ سیٹ اور نئی سوچ اپنانی ہے ، جب ہم نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں تو یہ نئی سوچ کا نام ہے ۔انہوں نے کہا کہ انگریز کے دور میں عوام اس لئے ٹیکس چوری کرتے تھے کیونکہ وہ اسے اپنی حکومت نہیں سمجھتے تھے اسی طرح کرپشن کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ گورنر ہاؤس میں صرف ایک آدمی رہتا تھا جبکہ دوسری طرف آدھی آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ، بچے ا سکولوں سے باہر ہیں ،عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔
جب ہم آزاد ہوئے تو ہمیں سادگی اختیار کرنی چاہیے تھا لیکن ہم نے وہی انگریزوں والا لائف سٹائل اپنایا ۔ ایک مغربی ملک جس کا جی ڈی پی پچاس مسلمان ممالک کے برابر ہے وہاں کے حکمران سادہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ ایک مقروض ملک کا رہن سہن دیکھ لیا جائے ۔ وزیر اعظم ہاؤس میں 80گاڑیاں تھیں، 524ملازم تھے کیا کسی مقروض ملک کو ایسا گوارا دیتا ہے ۔ ایڈمنسٹریشن کا رویہ بھی عوام کے ساتھ ایسا تھا جیسے انگریز دور میں تھا ۔ نئے پاکستان کا مطلب نئی سوچ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو تحفظ دیا جائے ، تھانوں میں عام آدمی ٹھوکریں کھاتا پھرتاہے ۔ کسی ضلع میں پولیس کا سربراہ پولیس کا سردار ہوتا ہے ،آپ میرٹ پر چلیں انصاف کریں ،کھلی کچہریا ں ہوں، یہ صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے ۔ تھانوں میں عوام دھکے کھاتے ہیں پولیس افسران اپنے دروازے عوام کے لئے کھولیں ، آپ نے کمزور کو طاقتور سے تحفظ دینا ہے ، ہم مانیٹرنگ کریں گے اور اس کیلئے نیا سسٹم لے کر آرہے ہیں ۔
وزیر اعظم ہاؤس میں شکایات سیل بنا ہے اسی طرز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں شکایات سیل کے قیام کا کہا ہے ۔ حکومت نے لوگوں پر توجہ دینی ہے اور عام آدمی کی زندگی بہتر کرنی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو انصاف دیا جائے ، پولیس افسران سے درخواست ہے کہ تھانوں کو خودمانیٹر کریں تاکہ عام آدمی سے ظلم اور زیادتی نہ ہو ۔ یہاں تھانہ طاقتور کا ساتھ دیتا ہے اور تھانے کا غندون کے ساتھ مل جانے کا کلچر ہے ،جب ایسا ہوتا ہے تو اس معاشرے میں اللہ کی برکت نہیں آتی ، آپ نے کمزور کو تحفظ دینا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان پر ضرور مشکل وقت ہے لیکن جب گورننس ٹھیک ہو گی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں