میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رفیق اور فریق کون کہاں؟

رفیق اور فریق کون کہاں؟

ویب ڈیسک
منگل, ۲۳ اگست ۲۰۲۲

شیئر کریں

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ صحافت کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ یہ جتنی ابتر آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ سیاست وصحافت کی یہ ابتری اس کی صلاحیت اور صالحیت دونوں ہی کے احوال کو واضح کرتی ہے۔ پاکستانی سیاست وصحافت اپنی بناؤٹ میں ان دنوں نہایت سطحی اور اُتھلی ہے۔ اگرچہ اس کے اثرات کا دائرہ کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔ سیاست وصحافت کے میدان پہلے جتنے لوگوں کو متاثر کرتے تھے،ا س سے کہیں زیادہ بڑے دائرے میں یہ اپنے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اگر چہ اس کا کھوکھلا پن پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں بھی ہے۔ یہ مطالعہ بیک وقت تسلی بخش اور تباہ کن کیوں ہے؟ اس جائزے میں یہ سوال نہایت دلچسپ طور پر موجود رہے گا۔
پاکستانی معاشرے میں سیاسی سطح پر کشاکش اپنی انتہا پر ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کشاکش میں ریاست کا سب سے طاقت ور فریق خود کہیں نہ کہیں اپنی چَھب دکھلا رہا ہے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب نابیناؤں کے درمیان ہاتھی کو سمجھنے کی مشق نہیں رہی۔ یہ مُشَخَّص ہو گئی ہے۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کا تذکرہ ایک خاص اُسلوب میں ہوتا تھا۔گاؤں کی الھڑ دوشیزہ جیسے اپنے محبوب کا تذکرہ پلو پکڑے” اِن” اور ”اُن” سے کرتی ہے، سیاست وصحافت کے جغادری بھی اسٹیبلمشنٹ کا تذکرہ اشاروں اور کنایوں میں کرتے تھے۔ اب یہ پردہ اُٹھ گیا ہے۔ نوازشریف نے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں ”نام بہ نام” الزامات کی ایک فہرست مرتب کر ڈالی۔ اس دوران میں ایک ایسا بیانیہ صحافت میں بھی مرتب ہوا جو پہلی دفعہ بے حجابانہ اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنارہا تھا۔ تب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اہداف میں جن سیاست دانوں اور صحافیوں کو اپنے روایتی بیانیوں اور گرفت کے طریقوں کے نرغے میں لیا ، وہ مسلم لیگ نون کے مقربین میں شامل تھے۔ طاقت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ ظاہر ہونے کے بعد اپنا خوف کھو دیتی ہے۔ نواز لیگ کے مقربین کے ساتھ یہی ماجرا ہوا۔ جو اُٹھائے (گرفتار کیے) گئے وہ ان کے خلاف پھر بٹھائے نہیں جا سکے۔ اختلاف ، طاقت کی بنیاد پر روکا جائے تو یہ مخالفت اور دشمنی کا روپ دھا لیتا ہے ،جسے ذہنوں سے جھٹکا اور دلوں سے کُھرچا نہیں جاسکتا۔انسانی تاریخ کا یہ معلوم نتیجہ ابھی طاقت ورحلقوں کے فہم میں بار نہیں پاسکا کہ انسان جو آزادی یافت کرلیتا ہے، اُس سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا۔ انسانی تاریخ اسی لیے اتنی خونی ہے۔
یاد کیجیے! عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں ہمارے ” صحافتی ہیروز ” کون بنائے گئے؟ اگر کسی کو یاد ہوتو ایک طاقت ور ترین شخص کے اجلاس سے اُٹھ کر ایک نواز لیگ کے مقرب سمجھے جانے والے صحافی نے انکشاف کیا تھا کہ موصوف بڑے اینکرز کے متعلق یہ فرما رہے تھے کہ اُنہیں دیکھتا کون ہے؟ میں تو فلاں یو ٹیوبر کا وی لاگ سن لیتا ہوں، اس سے حالات کا اندازا ہو جاتا ہے۔ بڑے اینکرز اس توہین کو چھپائے نہ چھپا پاتے تھے۔ جبکہ وہی یوٹیوبر اب معتوب ہے۔ اس صحافتی و سیاسی چلن میں اسٹیبلشمنٹ کا ذکر بے حجابانہ ہو نے لگا۔ جس کا لازمی نتیجہ خوف کم ہونے کی صورت میں نکلتا رہا۔ اسی دوران عمران خان کی حکومت اُٹھا پھینکی گئی ، ظاہر ہے یہ کام بغیر امداد کے ممکن نہیں تھا۔ معتوب پی ڈی ایم نے اقتدار کی راہداریوں میں جگہ پانے کے لیے اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے کو نئے سرے سے ترتیب دے کر ”نیوٹرل” کی اصطلاح گھڑی۔ یہ وہی کام تھا جو اس سے پہلے عمران خان حکومت میں فرما رہے تھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تعظیم کے لیے بیرونی حالات ، پڑوسی دشمنوں اور اندررونی چیلنجوں سمیت نہ جانے کیا کیا موقف پیش کرتے تھے۔ پی ڈی ایم کے اتحاد نے حکومت پانے کے لیے جو ”سجدۂ سہو” کیا ، اسے نیوٹرل نام سے مقدس بنانے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے اس بیانئے کو بھک سے اڑایا۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لب کھولنے میں انتظار کیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے اہداف بھی بدلنے لگے۔ اچانک معتوب صحافی ، محبوب ہو گئے۔ کل جن کے خلاف مقدمات بنتے تھے، وہ محب وطن قرار پانے لگے۔ عمران خان کے دور کے محب وطن ، اب وطن دشمن بیانیوں کے فروغ میں ملوث قرار دیے گئے۔ اورپہلے را کے ایجنٹوں کے ٹوئٹر ہینڈلز کے ذریعے ری ٹوئٹ کے شجرے بنا کر بے نقاب کیے جانے والے صحافی اب اچانک حب الوطنی کا بوجھا کندھے پر اُٹھانے لگے۔ یہ عکس برعکس صورتِ حال اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی کہ ابھی تک کون کس صف میں ہے یہ فہرست پوری طرح مرتب بھی نہیں ہوسکی؟
اب صورت حال کیا ہے؟ کل عمران خان کے مقرب صحافی جن صحافیوں کی گرفتاری کے جواز تراشتے تھے، اب وہی صحافی ان کی گرفتاریوں کے حیلے تراشتے ہیں۔ کل جن صحافیوں نے نوازشریف اور مریم نواز کی گرفتاریوں پر بغلیں بجائی تھیں ، اب اُنہیں شہباز گِل کی گرفتاری کے چرکے سہنے پڑ رہے ہیں اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں کی گرفتاری کے دھڑکے لاحق ہیں۔ اس کھیل کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیں۔ ابھی اسے سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کی واضح تقسیم کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ مگر اس کا ایک اور تناظر بھی ہے۔اس کھیل میں مخالف فریق اب سیاسی جماعت یا حکومت نہیں سمجھی جا رہی بلکہ اسٹیبلشمنٹ قرار دی جارہی ہے۔ پہلے یہ کام حکومتی جماعت کے کندھے استعمال کرتے ہوئے ہوتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے مگر فرق یہ ہے کہ اب استعمال ہونے والی جماعت مخالفت کا اُتنا بڑا ہدف نہیں رہی، جتنی اسٹیبلشمنٹ خود بن گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہر جماعت کو اپنی مخالفت کے ساتھ ایک ایسا ورثہ گرفتاریوں ، مقدمات اور دیگر مظالم کی صورت میں دے دیا ہے کہ اب یہ سب اس ورثے کا اشتراک رکھتی ہیں۔ نواز لیگ سے تحریک انصاف تک سب رہنما ایک جیسے سلوک سے دوچار ہیں۔ اسی طرح صحافیوں کی ان جماعتوں سے تقرب کی تقسیم کو دھیان میں رکھتے ہوئے الگ الگ ادوار میں ان سے سلوک کی تفصیلات جمع کرلیں، یہ بھی ایک جیسی نکلیں گی۔ گویا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت میں ایک جیسے ورثے کے ساتھ یکساں جذبات کی تہہ داریاں بھی پیدا کرچکی ہیں۔ اگر چہ اس مشترکہ ورثے کو سیاسی جماعتوں کے رہنما اور منقسم صحافی ابھی ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ مگر وقت کے بہاؤ میں یہ ورثہ مشترکہ سمت کے ساتھ ایک لائحہ عمل میں ڈھلنے کے امکانات بھی رکھتاہے۔ طاقت کی سب سے بڑی کجی یہ ہے کہ وہ سوچنے کا کام بھی دماغ کے بجائے ہاتھ سے لیتی ہے۔ چنانچہ حالیہ کھیل میں بھی سیاست کے آسمان پر جو بجلیاں چمک رہی ہیں اورجو طوفان پل رہے ہیں، وہ اُن کے احاطۂ ادراک میں نہیں آرہے۔
ایک چیز تو ابھی بھی نظر آ رہی ہے کہ کوئی بھی جماعت اسٹیبلشمنٹ کا سارا بوجھ اُٹھانے کو تیار دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت میں ہونے کے باوجود نواز لیگ کے اندر اس دھماچوکڑی کے حوالے سے ایک مختلف رائے بھی پائی جاتی ہے۔ گویا اسٹیبلشمنٹ کو اب صحافیوں اور سیاسی جماعتوں میں کسی بھی فریق سے یکسو رفیق میسر آنے کے امکانات نہایت محدود ہو چکے ہیں۔ اس اہم ترین نکتے کو نظرانداز کرکے جو کھیل اس وقت کھیلا جارہا ہے، اس کی عمر نہایت کم دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ستم ظریفیٔ حالات کا نشانا ابھی تحریک انصاف ہے، مگر وقت کے اصل نشانے پر اسٹیبلشمنٹ ہے۔ کاش یہ نکتہ ہاتھ کے دماغ کے بجائے دماغ کے ہاتھ، کے ہاتھ لگ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں