عربوں نے نواز حکومت کو کیوں ’’ناں‘‘ کی؟
شیئر کریں
صحرا بہ صحرا
یورپ والوں نے دنیا پر اپنی ایک اور برتری جتاتے ہوئے اس بات کو فخر یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے رومن بادشاہت کے بطن سے جمہوریت کو کشید کیالیکن حقیقت میں اس دعوی کا اگر تاریخی نتائج کے حوالے سے باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ نام نہاد جمہوریت بھی رومن سینٹ کے ارکان کی دولت تلے سسکتی رہی ہے جو سلطنت روما کے زوال سے قبل تک سیزر منتخب کرنے کے لیے کھلے عام رشوت کا بازار گرم کردیا کرتے تھے یعنی نام عوام کا لیکن کھیل وہی دولت کا ہوا کرتا تھا۔ یہی کھیل جدید جمہوریت کے بانی برطانیا میں کھیلا گیا رومن سینٹ کی طرز پر ’’ہائوس آف لارڈز‘‘ قائم تھا جہاں سب بڑا لارڈ ملک کا بادشاہ ہوتا بعد میں جمہوریت کا تڑکا لگا کر ’’ہائوس آف کامن ‘‘کی تشکیل کی گئی لیکن کھیل وہی دولت کا، عوام صرف ووٹ دینے کے لیے تھے جبکہ حکومت اشرافیہ کیا کرتی اور تاحال یہی صورت حال ہے۔لیکن ایک جوہری فرق بھی عوامی شعور کے نام پراپنی جگہ بناچکا یعنی امریکا ہو یا برطانیا یا کوئی اور مغربی ملک مالیاتی کرپشن ہر جگہ ہے لیکن ثابت ہونے پر کڑے احتساب کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے اور پکڑا جانے والا انجام کو پہنچتا ہے۔ یہ سب کچھ عوامی ردعمل میں ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں اداروں کی مضبوطی بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ اگر وطن عزیز کی سیاست سے کیا جائے تو معاملہ بالکل الٹ نظر آئے گا۔یہاں اداروں کی تحقیق کی بنیاد پر جرم ثابت بھی ہوجائے تو اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اب اگر ایسا ہو تو پھر کس کی بنیاد پر آپ انصاف کے حصول کا راستہ طے کریں گے؟ پانامہ کیس یہاں کی سیاسی صورت گری کا واضح ثبوت ہے۔حکمران خاندان کا دعوی ہے کہ ہم نے تین نسلوں کا حساب دے دیا جبکہ حساب تو صرف نوئے کی دہائی کے بعد کے معاملات کا مانگا گیا تھالیکن اس کا بھی واضح جواب نہیں دیا جاسکاالٹا سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ شریف خاندان نے ماضی سے لیکر موجودہ دور حکومت تک اپنے سیاسی پتے جس انداز میں کھیلے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی ذہانت کا حامل نہیں ہے پھر کاروباری سطح پر ایسی ’’ہوشربا ترقی‘‘ کیسے ممکن ہوگئی ؟ اب جبکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی ہے اور اس کے تمام حصے میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لائے جاچکے ہیں تو اپوزیشن جماعتیں مل کر وزیر اعظم نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کررہی ہیں دوسری جانب حکمران جماعت کا موقف ہے کہ وزیر اعظم استعفی نہیں دیں گے انہیں عوام نے منتخب کیا ہے اور عوام ہی انہیں مسترد کریں گے تو وہ وزیر اعظم ہائوس سے رخصتی اختیار کریں گے۔ ’’عوامی احتساب‘‘ یہ ہمارے کرپٹ حکمرانوں کا پسندیدہ نعرہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے عوام کی وہ بڑی تعدادجو ایک بریانی کی پلیٹ پر اپنا ووٹ کاسٹ کردیتی ہے ان کی جانب سے ہونے والا ’’احتساب‘‘ حکمرانوں کے حق میں ہی کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مو ثرقر اداروں کو چھوڑ کرالیکشن اور عوامی احتساب کے نعرے کی آڑ میں پناہ لینی کی کوشش کی جاتی ہے۔
موجودہ تماشے کی ابتدا اکتوبر 99میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے سے ہوئی۔اس سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ کارگل کا معرکہ لڑا جاچکا تھا جس نے سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے تھے یہ وہ وقت تھا جب جنرل مشرف کو بھارت کا سب سے بڑا حریف تصور کیا جاتا تھا۔ کلنٹن انتظامیہ نے نواز حکومت کی درخواست پر بیچ میں پڑکر پاک بھارت جنگ بندی کرائی باقی تاریخ ہے۔۔۔اس کے بعد میاں صاحب اپنے ہی لائے ہوئے آرمی چیف مشرف سے الجھ گئے ۔۔۔نتیجہ اکتوبر 99کا آرمی ایکشن اور میاں نواز شریف کی جدہ جلاوطنی۔ وطن عزیز کے بہت کم حلقے اس بات سے واقف ہیں کہ میاں صاحب کی رہائی اور پاکستان سے باہر جانے کی اجازت میں صرف سعودی حکومت ہی کارفرما نہیں تھی بلکہ دوسری جانب سے قطر حکومت نے بھی خاموشی کے ساتھ بہت ہاتھ پیر مارے تھے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میںدوحہ کی جانب سے متعدد وفود بھی اسلام آباد روانہ کئے گئے تھے جنہوں نے مشرف انتظامیہ سے شریف خاندان کی جلاوطنی پر تقریبا کامیاب مذاکرات کئے تھے اس وقت قطر کا وزیر خارجہ یہی مشہور ’’قطری شہزادہ‘‘ تھا جس کا نام حمد بن جاسم ہے وہ اس وقت کے امیر قطر حمد بن خلیفہ آل ثانی کی تھپکی پر یہ تمام امور چلا رہے تھے پھر اچانک ایساہوا کہ نواز شریف نے قطری فارمولے کی بجائے سعودی فارمولے کو تسلیم کرتے ہوئے جدہ جانے کا فیصلہ کرلیاجبکہ سابقہ احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کو دوحہ روانہ کردیا جہاں وہ اپنا کاروبار بھی کرتے رہے اور شریف خاندان کے قطری شاہی خاندان کے ساتھ کاروباری معاملات کی نگرانی بھی کرتے رہے۔نواز شریف کا اچانک سعودی فارمولہ تسلیم کرکے جدہ جانے کے فیصلے نے دوحہ کو خاصی خفت سے دوچار کردیا تھااور اس وقت کے امیر قطر حمد بن خلیفہ آل ثانی اور وزیر خارجہ حمد بن جاسم نے اس حوالے سے خاصی اہانت محسوس کی تھی مگر ظاہری طور پر اس معاملے پر کوئی ردعمل دینے سے گریز کیا گیا۔ ۔۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’’ردعمل‘‘حمد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو پیش کردہ قطری خط کی توثیق نہ کرکے دیا ہے کیونکہ قطری انٹیلی جنس سعودی عرب کے علاوہ عرب امارت میں شریف خاندان کے کاروباری معاملات سے پوری طرح واقف تھی جبکہ یہ خط جے آئی ٹی میں شریف خاندان کے حق میں استعمال کرنے کے لیے طلب کیا جارہا تھا۔ یہ بات صرف شریف خاندان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں قطر سعودی عرب اور عرب امارت کے درمیان موجودہ خلیجی تنازعہ بھی اہم پہلو رکھتا ہے اسلام آباد کے عرب سفارتی ذرائع کے مطابق ٹرمپ کی موجودگی میں ریاض میں ہونے والی امریکا اور اسلامی دنیا کی کانفرنس کے دوران بھی پاکستانی وفد کی جانب سے موجودہ امیر قطرشیخ تمیم بن خلیفہ آل ثانی سے حمد بن جاسم پر خط کی توتوثیق کے لیے دبائو ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن ذرائع کے مطابق اس وقت شیخ تمیم نے اس سلسلے میں اس مسئلے کو خاندانی مسئلہ کہہ کرکسی بھی قسم کاکردار کے ادا کرنے سے معذرت کرلی تھی۔۔۔ واللہ اعلم
ایسا کیوں ہوا؟ اسے سمجھنے کے لیے خلیج کے موجودہ بحران کی قریبی تاریخ کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازعہ کی ابتدا نوئے کی دہائی سے اس وقت شروع ہوئی جب خطے کے انتہائی چھوٹا ملک ہوتے ہوئے بھی قطر نے ’’خلیج تعاون کونسل‘‘ کے معاملات میں ’’بڑا کردار‘‘ ادا کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔قطر سمجھتا تھا کہ بے پناہ مالی وسائل کے ساتھ ساتھ امریکی سینٹ کام کے مرکز کا دوحہ میں موجود ہونا اس کا خطے میں وزن بڑھا دیتا ہے اس لیے خلیج تعاون کونسل کے ممالک میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونا چاہئے اس فکر کے تحت قطر نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے اپنے وزن میں مزید اضافے کی کوششیں شروع کردیں۔ رسوخ میں اضافے کی یہی خواہش دوحہ کو اسلام آباد کھینچ لائی تھی جہاں اس جوہری طاقت کے حامل پہلے اسلامی ملک کی داخلی سیاسی صورتحال میں اس نے اس انداز میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی کہ اس نے شریف خاندان کی پاکستان سے باہر منتقلی کی کوششوں میں خاموشی سے اپنا حصہ ڈال دیا۔عالمی سطح پررسوخ میں اضافے کی اس خواہش نے سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ سعودی عرب آبادی اور جغرافیائی طور پربلا شبہ خطے کا سب سے بڑا ملک ہے اسی بناپر خلیج تعاون کونسل میں اسے ’’بڑے بھائی‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے وجود کو منوانے کے لیے قطر نے خطے کے دیگر ممالک سے ہٹ کر پالیسی اختیار کی اور مصر میں معتوب اخوان المسلمون اور مقبوضہ فلسطین میں حماس کی نہ صرف حمایت کا اعلان کیا بلکہ دوحہ میں ان کی لیڈر شپ کو پناہ بھی دی۔ باقی عرب حکومتیں ان جماعتوں کو اپنے ہاں جمہوریت کے فروغ کا سبب سمجھتے لگیں اسی لیے ان کے خلاف ہوگئیں۔ مصر میں اخوان کی ایک سالہ صدر مرسی کی حکومت کا قیام اسی مقصد کے لیے امریکا اور اسرائیل کو منظور ہوا تھا کہ وہ اس کے ذریعے باقی عرب حکومتوں کو باور کروا سکیں کہ اگر مصر جیسے مضبوط ملک میں ایسا ہوسکتا ہے تو پھر تمہاری باری بھی آنے والی ہے۔ اس صہیونی دجالی سازش نے مشرق وسطی کے امن کو آگ میں جھونک دیا جس کا مشاہدہ اب ہم آئے روز کرتے ہیں ۔اس بڑے واقعے کے بعد دوسرا بڑا معرکہ جو قطر اور عرب امارت میں ہوا وہ لیبیا کی جنگ اور قذافی کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد کی صورتحال تھی۔ قذافی کی حکومت کو ختم کرانے میں وہاں کی اسلامی تحریکوں کو مغرب اور خلیجی ممالک کی جانب سے پہلے خوب مدد فراہم کی گئی جس وقت لیبیا میں قذافی کو قتل کردیا گیا اور اب وہاں نئی حکومت کی تشکیل کا وقت آیا تو قطر اور عرب امارات کی پراکسی جنگ شروع ہوگئی۔ قطر وہاں اخوان سے متاثر مسلح جماعتوں کو مدد فراہم کرنے لگا جبکہ عرب امارت نے لیبیاکی نیشنل آرمی کے نام سے تشکیل کردہ مسلح گروپ کے کمانڈر خلیفہ حفتر کی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ مصر کی سیسی حکومت کی مدد سے اسے بھاری مقدار میں اسلحہ بھی فراہم کیا۔ خلیفہ حفتر قذافی کے انقلاب کے زمانے سے اس کا قریبی ساتھی تصور ہوتا تھاچاڈ کی جنگ میں قذافی نے خلیفہ حفتر کو کمانڈ سونپ رکھی تھی۔ لیکن بعد میں قذافی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوجانے کے بعد وہ امریکا فرار ہوگیا۔ قذافی کے خلاف مہم کے دوران اسے امریکا سے واپس لایا گیا اور لیبین نیشنل آرمی کے نام پر مسلح گروپ تشکیل دے کر اسے اسلام پسند تحریکوں سے لڑا دیا گیا۔ جس نے لیبیا میں قطر اور عرب امارت کی پراکسی جنگ کو جنم دیا اس کے بعد شام میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی۔ عرب امارات نے امریکا نواز بشار مخالف گروپوں کی حمایت کی تو قطر نے وہاں پر اسلام پسند گروپوں کی مدد شروع کرد ی جس کی بناپر خلیج تعاون کونسل کے دیگر ملکوں کی جانب سے قطر پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا اور یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف متحارب عرب اتحاد سے قطر کو نکال باہر کیا گیا ہے۔امریکا اور اسرائیل جہاں اہم ترین عرب ملکوں میں تباہی پھیلا چکے ہیں وہاں وہ باقی عرب ملکوں کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکانے میں بھی پوری طرح کامیاب ہیں اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن ایک طرف ریاض میں ملاقاتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب دوحہ میں امیر قطر کے ساتھ دیگر معاملات کی ڈیل کرتے نظر آتے ہیں اور عرب صحافتی ذرائع یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ معلوم نہیں امریکی وزیر خارجہ کس کی جانب ہیں ۔۔۔؟!!اس دجالی صہیونی منصوبے کو کھلی آنکھوں کے ساتھ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن عرب حکمرانوں کی عقلوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔
یہ ہے خطے اور مشرق وسطی کی وہ مختصر صورتحال جس میں وزیر اعظم پاکستان میاںنواز شریف اپنے عرب دستوں سے مدد مانگ رہے ہیںلیکن سفارتی ذرائع کے مطابق ہر طرف سے نہ ہوچکی ہے۔دوحہ نے قطری خط میں توثیق نہ کرکے جواب دے دیا ہے، عرب امارات کی وزارت عدل کی جانب سے مہیا کردہ تصدیق شدہ دستاویزات نے حالات کا رخ متعین کردیا ہے جبکہ ریاض کے نزدیک قطر کے حوالے سے نواز حکومت کی پالیسی میں ابھام ہے یہی وجہ تھی کہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی غرض سے کئے جانے والے دورہ ریاض کے دوران ان سے صاف طور پرپوچھا گیا تھا کہ وہ دوحہ کے ساتھ ہیں یا ریاض کے ساتھ ۔
جہاں تک وطن عزیز میں موجودہ سیاسی صورتحال کا تعلق ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز حکومت عملی طور پر معطل ہوچکی ہے، ذرائع کے مطابق نااہلی کی صورت میں پنجاب میں بڑا ردعمل دینے کی کوششوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب اداروں کی جانب سے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کوباقاعدہ اس سلسلے میں خبردار کردیا گیا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا موقف ’’بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانے ‘‘ والا ہے۔یہ وہ جماعت ہے جس نے حکومت کی کرپشن کے خلاف نہ تو رٹ دائر کی اور نہ دوران تفتیش کوئی کردار ادا کیا لیکن اب نتیجہ سامنے دیکھ کر وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کردیا ہے اس لیے کہا جارہا ہے کہ مبینہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ عجیب لگتا ہے جبکہ ڈوبتی پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نہ چاہتے ہوئے بھی ملک سے باہر ہیں۔ اب ان کا قیام دبئی میں بھی نہیں ہوتا ذرائع کے مطابق عرب امارت کی حکومت نے ان پر سے بھی ہاتھ اٹھا لیا ہے وہ امارات سے جلد از جلد اپنے اثاثے یورپ منتقل کرنے کی فکر میں ہیں انہیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر یہاں کے حکام عزیر بلوچ کو پاکستان کے حوالے کرسکتے ہیں تو کل ان کا بھی نمبر آسکتا ہے امارت کی وزارت عدل کی جانب سے نواز شریف کے خلاف جانے والی دستاویزات کے مہیا کیے جانے کے بعد ان کے خدشات مزید پختہ ہوچکے ہیں۔ ذرائع کا خیال ہے پانامہ اسکینڈل کے منطقی انجام تک پہنچنے کے بعد اگلا مرحلہ دوبارہ سندھ کا ہے اور معاشی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن دوبارہ اسی جگہ سے شروع ہوجائے گا جہاں سے روک کر پنجاب کی جانب رخ کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بے نظیر قتل کیس کی فائل بھی جلد کھلنے والی ہے کیوں ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے چشم کشا اعترافات کے بعد اس کیس کے حوالے سے تحقیقی اداروں کے ہاتھ بہت سے ثبوت آچکے ہیں ۔
٭٭…٭٭