میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بخشش کا بہانہ

بخشش کا بہانہ

ویب ڈیسک
پیر, ۲۹ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے اپنی تنی گردن بمشکل ہلاتے ہوئے سرکو جنبش دی ۔میں کچھ نہیں کرسکتا اور میزپر فائلوںمیں مگن ہوگیا۔وہ ایک بڑے ادارے کا با اختیار افسر تھا، چھوٹے موٹے مسئلے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل کرنے پر قادر تھا ہم اس کے پاس ایک واقف کار کے کام آئے تھے ۔مسئلہ اتنا بڑا تو نہ تھا کام بھی جائز ۔اس کے دفترکے ایک غریب ملازم کو تھوڑی سی ”فیور” دلانا مقصود تھا۔ بے چارے کی ماں کی بیماری تھی، بغیراطلاع چند دن دفتر نہ آنے اور کبھی کبھار لیٹ آنے پر شوکاز نوٹس ۔پھر جواب سے مطمئن نہ ہونے پر تادیبی کارروائی ۔افسر کے رویہ نے اسے ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ ہم غریب ملازم کی ہمدردی میں سفارش کرنے چلے آئے تھے، لیکن ہمیں اس ”انکار ”کا پہلے سے علم تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا لوگوں کو چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر ٹالنا اور چکرپر چکر لگوانا موصوف کا پسندیدہ مشغلہ تھا شایدلوگوںکی بے بسی سے محظوظ ہونے پر اسے مزا آتا ہوگا ۔وہ عام طورپرکسی کو ملنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
جناب ! میرے دوست نے کچھ دیروقفے کے بعد پھراسے مخاطب کیا۔ آپ کے لیے تو یہ معمولی بات ہے۔
وہ ۔۔فائل کا مطالعہ کرتا کرتا ایسے رک گیا جیسے کھلونا چاپی ختم ہونے پر رکتاہے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے حیرت سے الٹا سوال داغ ڈالا۔۔۔ آپ ا بھی تک گئے نہیں؟
میرے دوست نے اسی کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے پھر کہا دیکھئے ! آپ کی ذرا سی فیور مسئلہ حل ۔۔
” نہیں۔۔اس نے اپنی تنی گردن پھربمشکل ہلائی۔۔ میں نے شگفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔۔ یہ کام تو آپ کو کرناہی ہوگا لیکن لگتاہے اس کام کیلئے آپ کے کسی دوست کوسفارش کرنا پڑے گی ۔
اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔ میرا تو کوئی دوست نہیں؟
”ہونا بھی نہیں چاہیے۔۔میں پھٹ پڑا اور تڑک سے جواباً کہا۔۔ اس نے حیرانگی سے مجھے گھورا۔۔سیٹ سے اٹھنے کی کوشش میں پھر کرسی پر جا پڑا۔۔میںنے بولنے کا سلسلہ جاری رکھا جن لوگوں کے دل میں اخلاق، مروت ،احساس ، انسانیت نام کی کوئی چیزنہ ہو کوئی اس کا دوست بننا پسند نہیں کرتا۔۔ وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بڑبڑایا ۔اچھا۔۔ کیا کہہ رہے ہو؟
ایسے لوگ ابنارمل ہوتے ہیں۔۔میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
کیسے لوگ؟۔۔اس کے لہجے میں حیرت اور تجسس تھا
”آپ جیسے۔۔جن لوگوںکا رویہ دوسروں سے نارمل نہیں ہوتا وہ ابنارمل ہوتے ہیں سمجھے آپ۔۔میں بولا تو بولتا ہی چلا گیا۔۔۔ ایک بات اور سن لیجیے جس کا کوئی دوست نہ ہو اسے دنیا کا سب سے غریب شخص کہا جا سکتاہے۔۔اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اس نے اپنی موٹی گردن کہلانے کی کوشش کی ۔ناکامی پردونوںہاتھوں سے آنکھیں ملیں اور بیل بجائی۔۔ میں تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا، اس نے یقینا سیکیورٹی گارڈ کو حکم دینا تھاان دونوں کو باہر نکال دو ۔۔ عزت سے جانا زیادہ بہتر تھا۔۔ایک کرخت صورت والا چپڑاسی اندر داخل ہوا تو میں نے دوست کو اشارہ کرتے ہوئے جانے کیلئے قدم اٹھایا ہی تھا، اس نے ہمیں بیٹھنے کا اشار ہ کیا اورچپڑاسی سے کہنے لگا دو۔۔۔ نہیں تین ٹھنڈے لے آئو۔۔چپڑاسی نے سنا تو اسے ایسے لگا جیسے اس کے سر سے ایٹم بم آن ٹکرایا ہو، اس نے حیرت، پریشانی اورعجیب کیفیت سے اپنے” صاحب” کو دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔۔ اس نے چپڑاسی کوہاتھ اٹھاکر جانے کو کہا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا ۔ دراصل میری چار سالہ سروس میں پہ پہلا موقع ہے میںنے کسی کے لیے کچھ منگوایا ہو، اس لئے حیرت تو یقینی بات تھی۔ ٹھنڈا آنے سے پہلے ہم جس کام آئے تھے وہ کام ہوگیا۔۔
اپنے ارد گردکا ماحول دیکھئے کسی سے کچھ کہنے یا سننے کی ضرورت نہیں۔ صرف لوگوںکے رویہ پر ہی غورکافی ہے۔ آپ دل سے محسوس کریں گے کہ ہم سب کے سب ایک ایسی بیماری میں مبتلاہوگئے ہیں جس کا نام” بے مروتی ”ہے جس کی بڑی نشانیوںمیں ایک دوسرے سے لاتعلقی، اپنی ذات سے پیار اور صرف اپنے متعلق سوچناہے ۔دنیاکاہر مذہب اور معاشرہ اپنے اڑوس پڑوس اور جاننے والوں سے حسن سلوک کادرس دیتاہے جبکہ دین ِ فطرت اسلام نے تو ہمسائیوںکے حقوق پر سب سے زیادہ زوردیاہے ۔محلے میں طرفین کے چالیس چالیس گھروںکو ہمسایہ قراردیا گیاہے بلکہ اولیائے کرام نے تو یہاں تک کہہ ڈالا جس کا ہمسایہ رات بھوکا سو گیا، اس پورے محلے کی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ ہمارے آس پاس ہو سکتاہے کسی گھر بھوک سے بلبلاتا بچہ سو گیاہو۔۔۔یا فاقوںسے تنگ خاندان اجتماعی خودکشی پر مجبورہو یا پھرکسی طالبعلم کے پاس امتحان کی فیس ہی نہ ہو اور دلبرداشتہ ہوکر کچھ انتہائی اقدام کے بارے میں سوچ رہاہو ۔۔جب تک معاشرے میں ایک دوسرے سے روابط بہتر نہیں ہوں گے ،یہ مسائل برقرار رہیں گے۔ نبیوں ،ولیوں اور ممتاز شخصیات کی ساری تعلیمات میں انسان سے محبت کرنے درس دیاگیاہے۔ اس کے بغیرایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہی نہیں۔
ہرشخص کو اپنے بہتر مستقبل کیلئے سوچنے، آگے بڑھنے اور کامیابیاں سمیٹنے کا پورا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک مقصد بھی ہے۔ انسان کو لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے پر بھی وہ خوشی، وہ روحانی مسرت اور وہ سکون نہیں مل سکتا جو انسانیت کی خدمت ، دردِ دل ،ایک دوسرے کے کام آکر اور آپس کے دکھ درد میں شراکت کرکے مل سکتاہے۔ آزمائش شرط ہے۔ اپنے بچوںسے بھی دوستی کریں، ان سے کبھی کبھار مشاورت بھی کرلیں ،کوئی فیملی پرابلم بھی ڈس کس کرلیں، اس کے بہت خوشگوار اثرات برآمد ہوں گے گھرکا ماحول جنت بن جائے گا۔دولت کی ریل پیل ،بڑے بڑے محل نما مکان اور آسائشوںکی بھرمارکے باوجود دل محبت سے خالی ،احساس سے عاری ہوتے جارہے ہیں تو سوچنا چاہیے اس کاعلاج کیاہے؟سرگنگا رام، بل گیٹس، مئو ہسپتال کے بانی ،گلاب دیوی، عبدالستار ایدھی ،مدرٹریسا ،ڈاکٹر رتھ فائو جیسے ان گنت لوگوںکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں نہ جانے کتنے لوگ ہمارے ارد گرد نمو دو نمائش سے پرہیزکرتے ہوئے سماجی بہبود کے ادارے چلارہے ہیں۔ کہیں فری آئی ہسپتال ہیں کہیں فری دستر خوان میں سینکڑوں مستحقین کھانا کھاکر پیٹ بھرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کے ایک صنعت کار نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر 90بے گھروں کو مکان بناکر ان کے نام کردیے ،ایسے ہزاروں انسانیت کی بے اوث خدمت کرنے والے ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ہم پھر بھی اپنی ذات کے خول میں بند ہیں اور اسی کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں اگر آپ کے وسائل کم ہیں یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہر شخص اگر اپنی آمدن کاایک فیصد بھی مستحقین کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ کرلے تو یقین جانئے بہت سے لوگ فاقوں سے بچ سکتے ہیں۔کئی طالبعلم فیس نہ ہونے سے تعلیم ادھوری نہیں چھوڑیں گے۔ شایدکچھ عیدپر نئے کپڑے ملنے پر خودکشی کرنے سے محفوظ رہ جائیں۔شاید آپ کی مدد سے کوئی چھوٹا سا ٹھیلا لگاکر اپنے خاندان کو عزت کی روٹی کھلانے کے قابل ہو جائے۔آپ کی کوشش سے کسی کو چند مسکراہٹیں بھی میسر آجائیں تو یقین جانئے یہ سودا برا نہیں، شاید زندگی کا حاصل ہو اورقیامت کے روز بخشش کا بہانہ بن جائے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں